کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 88
سے فتویٰ دینے والا مفتی کون ہے ؟ بوڑھے نے جواب دیا: بنی اَصبح کا سردار مالک بن انس (امام مالک رحمۃ اللہ علیہ )۔ میں نے کہا: آہ! اللہ ہی جانتا ہے، امام مالک سے ملنے کا مجھے کتنا شوق ہے ! بوڑھے نے جواب دیا: خو ش ہوجاؤ، اللہ نے تمہارا شوق پورا کردیا۔ اس بھورے اونٹ کو دیکھو، یہ ہمارا سب سے اچھا اونٹ ہے، اسی پر تم سوار ہوگے۔ ہم اب جا ہی رہے ہیں ، رستے بھر تمہاری ہر طرح کی خاطر کریں گے۔ کوئی تکلیف ہونے نہ دیں گے اور مدینے میں مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تمہیں پہنچا دیں گے۔‘‘ جلد اونٹ قطار میں کھڑے کر دیے گئے مجھے اسی بھورے اونٹ پر بٹھایا گیا اور قافلہ چل پڑا۔ میں نے تلاوت شروع کردی، مکہ سے مدینے تک سولہ بار قرآن کریم ختم ہوگیا۔ ایک دن میں ختم کرلیتا اور دوسرا رات میں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات آٹھویں دن نمازِ عصر کے بعد مدینے میں ہمارا داخلہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھی، پھر قبر شریف کے قریب حاضر ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ یہیں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ دکھائی دیے۔ ایک چادر کی تہ بند باندھے تھے، دوسر ی چادر اوڑھے تھے اور بلند آواز سے حدیث روایت کر رہے تھے: ’’مجھ سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے اس قبر کے مکین سے روایت کیا …‘‘یہ کہہ کر اُنہوں نے زور سے اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور قبر شریف کی طرف اشارہ کیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بن انس کی ہیبت مجھ پر چھاگئی اور جہاں جگہ ملی، میں وہیں بیٹھ گیا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ حدیث روایت کرنے لگے۔ میں نے جلدی سے زمین پر پڑا ہوا ایک تنکا اُٹھا لیا۔ مالک جب کوئی حدیث سناتے تو میں اسی تنکے کو اپنے لعابِ دہن سے تر کرکے اپنی ہتھیلی پر لکھ لیتا۔ امام مالک میر ی حرکت دیکھ رہے تھے مگر مجھے خبر نہ تھی۔ آخر مجلس ختم ہوگئی اور امام مالک دیکھنے لگے کہ سب کی طرح میں بھی اُٹھ جاتا ہوں یا نہیں ۔ میں بیٹھا رہا تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اشارے سے مجھے بلایا۔ میں قریب پہنچا تو کچھ دیر بڑے غور سے مجھے دیکھتے رہے۔ پھر فرمایا:’’تم حرم کے رہنے والے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں حرم کا باشندہ ہوں ۔ پوچھا: