کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 85
(Terrible Ivan the)کے حالات جاننا پڑیں گے اور یہ بھی کہ جہازرانوں کا قطب نما چین سے نکل کر عرب ملاحوں کے پاس کیوں کر پہنچا اور یہ کہ سب سے پہلے یونانیوں نے مہاتما بُدھ کے مجسّمے بنائے۔ جب ان کے اوقات سے ایسے تقاضے کیے جائیں گے تو ان کی برہمی کی کوئی حد نہیں رہے گی اور وہ ایک ایسی نئی حکومت کے لیے جدوجہد شروع کردیں گے جو مجلس اقوام کے اَحکام کی خلاف ورزی کا حلف اُٹھالے۔ ہمارے عہد میں تمام مغربی دنیا کا سارا عملی زور سرمایہ دارانہ مہموں پر صرف ہورہا ہے اور مجموعی طور پر یہ ایسی طاقت ہے جو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ انسانوں کی وہ جماعتیں جو اچھے کام کرسکتی ہیں ، مثلاً سکولوں کے اساتذہ ان کی ایک معتدبہ تعداد حالت ِموجودہ پر قائع ہے۔ اگر سماج میں کوئی اصلاح کی جائے گی تو اس سے ان کے اسباق میں بھی تبدیلی لازمی ہوجائے گی، اس لیے جہاں تک ممکن ہو، وہ اس سے بچنا ضروری سمجھیں گے۔ جس کوشش سے وہ بچنا چاہتے ہیں ، اس کی حیثیت صرف عقلی نہیں بلکہ جذباتی بھی ہے۔ جانے پہچانے جذبات آسانی سے پیدا ہوجاتے ہیں اور ایک جانے پہچانے موقع پر (مثلاً قومی ترانے کے گائے جانے کے وقت) اپنے آپ کو نئے قسم کے جذبات پیدا کرنے کا ڈھب سکھانا مشکل ہے۔ اس طور پر ہماری موجودہ دنیا جہاں نیک آدمی کاہل ہیں اور صرف بُرے لوگ سرگرمِ عمل، بدقسمتی کے عالم میں چکر کھاتی ہوئی تباہی کی طرف جارہی ہے۔ بعض اوقات لوگ تباہی کے غار کو دیکھ لیتے ہیں ، لیکن غیرحقیقی جذبات کانشہ جلد ان کی آنکھوں کو بند کردیتا ہے۔ جو لوگ نشے کی حالت میں نہیں ہیں ، ان کے لیے خطرہ بالکل واضح ہے۔جذبۂ قومیت ہی وہ بڑی طاقت ہے جو ہماری تہذیب کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ نوٹ: انگلستان کے سرکاری سکولوں میں جذبۂ قومیت کا اندازہ مس بیرل ایلوارڈ (Miss Beryl Aylward) کی مثال سے لگایا جاسکتاہے جسے کوونٹری(Coventry) کے سکول سے اس لیے موقوف کردیا گیا کہ اس نے امپائر ڈے کے موقع پر قومی جھنڈے کو سلامی دینے سے انکار کردیاتھا۔ اس نے یہ کہا تھا کہ چونکہ وہ کوئیکر جماعت سے ہے، اس لیے وہ خود اپنے ملک کی قصیدہ خوانی کو بین الاقوامی جذبۂ خیرسگالی کا ممد نہیں خیال کرتی؛ لہٰذا ظاہر ہے کہ کوئی باضمیر کوئیکر یا صلح کل انسانی انگلستان کے کسی سرکاری سکول میں اُستاد کی اسامی پر نہیں رہ سکتا۔