کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 84
رکھتا ہے۔ حکومت کی مسلح افواج اہلِ ملک کو دولت مند بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں یا کی جاسکتی ہیں ۔اس چیزکی تکمیل کچھ تو خراج اور تاوان کی وصولی سے کی جاتی ہے، کچھ ان قرضوں کی ادائیگی پر اِصرار کرنے سے جو ردّ کیے جاسکتے تھے، کچھ اجناسِ خام پر قبضہ کرنے سے اور کچھ جبری تجارتی معاہدوں سے۔ اگر اس تمام طریق کار کو جذبۂ قومیت کے نظر فریب حسن نے چھپا نہ دیا ہوتا تو تمام معقول انسانوں پر اس کی بے ہودگی اور بُرائی واضح ہوجاتی۔
اگر آپ چاہیں توتعلیم آسانی سے لوگوں میں انسانی نسل کے استحکام اور بین الاقوامی تعاون کا احساس پیدا کرسکتی ہے۔ ایک ہی نسل کے اندر اندر اس تیز و تند جذبہ قومیت کی آگ کوبجھایا جاسکتا ہے جس سے دنیا تکلیف میں مبتلا ہے، ایک ہی نسل کے اندر اندر اس جذبے کی دیواروں کو جو ہمیں روز بروز مفلس بنا رہی ہیں ، پست کیا جاسکتا ہے۔ جنگی تیاریاں جن سے ہم اپنے آپ کو موت کے خطرے میں مبتلا کررہے ہیں ، ختم کی جاسکتی ہیں اور وہ خبث ِ باطن جس سے ہم خود اپنی ناک آپ کاٹ رہے ہیں ، جذبات ِ خیر سگالی میں بدل سکتاہے۔ جذبۂ قومیت جو اس وقت ہر طرف چھایا ہواہے، زیادہ تر سکولوں کی پیداوار ہے اور اگر اس کو ختم کرنا ہے تو ہمیں تعلیم میں نئی روح پھونکا ہوگی۔
یہ معاملہ بھی تخفیف ِاسلحہ کی طرح بین الاقوامی سمجھوتے سے طے کرناپڑے گا۔ مجلس اقوام کو اگرکبھی چیرہ دست اقوام کے اعمال کی لیپ پوت سے فراغت مل گئی تو شاید وہ جلد یا بدیر معاملے کی اہمیت سے آگاہ ہوجائے۔ ممکن ہے حکومتیں تاریخ کی ایک سی تعلیم پر راضی ہوجائیں ، ممکن ہے اگلی جنگ عظیم کے ہلاکت سے بچے کچھے لوگ، بشرطیکہ کوئی زندہ بچ سکا، جمع ہوکر فیصلہ کریں کہ متعدد قومی جھنڈوں کی جگہ بین الاقوامی جھنڈے کو دے دی جائے، لیکن بلا شبہ یہ باتیں شیخ چلّی کے خواب ہیں ۔
یہ اُستادوں کی فطرت ہے کہ جو کچھ وہ جانتے ہیں ، وہی سکھاتے ہیں ، خواہ یہ علم کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو۔فرض کیجیے کہ تاریخ کے انگریز اُستادوں کوایک ایسے بین الاقوامی معاہدے کاخطرہ درپیش ہے جس کے ماتحت عالمی تاریخ کا پڑھانا ضروری ہوگا۔ ایسی حالت میں اُنہیں سن ہجری اور فتح قسطنطنیہ کی تاریخ بھی معلوم کرنی ہوگی۔ اسی طرح چنگیز خاں اور آئیوان مہیب