کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 83
کون سے انگریز بچوں کو مدارس میں آئرلینڈ کے بلیک اینڈٹینز(Black and Tans) کے واقعات کے متعلق سچ بتایا جاتا ہے؟ کون سے فرانسیسی بچوں کو سیاہ افواج کے قبضۂ روہر کے بارے میں سچائی بتائی جاتی ہے؟ کون سے امریکی لڑکے کو ساکو (Sacco) اور ونزٹی (Vanzetti) کے متعلق یا مونی(Mooney) اور بلنگز(Billings)کے بارے میں صحیح واقعات بتائے جاتے ہیں ؟ انہی نظر اندازیوں کی وجہ سے ہر مہذب ملک کا ایک عام شہری خود فریبی میں پھنسا رہتا ہے، وہ باقی اقوام کے متعلق ان تمام اُمور سے باخبر ہوتاہے جو خود اُنہیں معلوم نہیں ہوتے اور اسے ان باتوں کی خبر نہیں ہوتی جو دوسری قومیں اپنے ملک کے متعلق جانتی ہیں ۔ حب ِ وطن کی تعلیم کااکثر حصہ توعقلی طور پر غلط ہے، تاہم اخلاقی لحاظ سے اس کی حیثیت بے ضرر ہے۔ جولوگ پڑھاتے ہیں خود اُنہیں غلط طریقے پر تعلیم دی گئی تھی؟ چنانچہ وہ یہ محسوس کرنا سیکھ گئے ہیں کہ جس دنیا میں دوسرے ممالک کے لوگ ایسے برے ہیں ، وہاں عظیم فوجی مساعی ہی ان کے ملک کو تباہی سے بچا سکتی ہیں ۔ بہرحال حب ِ وطن کے اس پروپیگنڈے کاایک اور کم بے ضرر پہلو بھی ہے۔ کچھ مفاد ایسے ہیں جو اس پروپیگنڈے سے زر اندوزی کا کام لیتے ہیں ۔ صرف اسلحہ سازی کے مفاد ہی نہیں بلکہ وہ مفاد بھی جنہوں نے پس ماندہ ملکوں میں روپیہ لگا رکھا ہے؛ مثلاً اگر تم کسی غیر منظم ملک میں تیل کے مالک ہو تو تیل نکالنے کے اخراجات کے دو حصے ہوں گے: اوّل فنی یعنی تیل نکالنے کے سیدھے سادے مصارف، دوم سیاسی یا فوجی۔ یعنی باشندگانِ ملک کو قابو میں رکھنے کے اخراجات۔ تمہیں ان اخراجات کاصرف پہلا حصہ ہی برداشت کرنا ہوگا، اخراجات کا دوسرا حصہ جو ممکن ہے، بہت زیادہ ہو، ٹیکس اداکرنے والوں پر پڑے گا جنہیں حب ِوطن کے پروپیگنڈے کے زور سے یہ بوجھ اُٹھانے پر آمادہ کیاجائے گا۔ اس طریقے سے حب ِ وطن اور مالیات میں ایک نہایت نامناسب رابطہ قائم ہوجاتاہے۔ یہ ایک مزید حقیقت ہے جس کو نوجوانوں سے نہایت احتیاط کے ساتھ چھپایا جاتا ہے۔ حب ِ وطن کا جذبہ اپنی تمام جنگجویانہ شکلوں میں روپے پیسے کے ساتھ نہایت گہرے روابط