کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 82
لیکن ان اعتراضات کے علاوہ اس تعلیم کے خلاف ایک خالص عقلی اعتراض بھی ہے، یعنی قومیت کی تعلیم کئی بے سروپا باتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں بچوں کو پڑھایا جاتاہے کہ ان کا ملک بہترین ملک ہے، اور سوائے ایک ملک کے باقی ممالک میں یہ بات غلط ہے۔ چونکہ مختلف اقوام اس امر پر متفق نہیں ہوسکتیں کہ وہ کون سا ملک ہے جس کے متعلق یہ بات درست ہے، اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ دوسری اقوام کی تذلیل کرکے اپنی قوم کی خوبیوں پر زور دینے کی عادت کو چھوڑ دیاجائے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ خیال سرے سے مفسدانہ اوربعض صورتوں میں خلافِ قانون سمجھا جاتا ہے کہ بچوں کو جو کچھ پڑھایا جائے، وہ امکانی حد تک درست ہونا چاہئے، لیکن پھر بھی میرا عقیدہ یہی ہے کہ جھوٹ سکھانے سے سچ سکھانا بہتر ہے۔ تاریخ تمام ممالک میں ایک ہی طرح پڑھائی جانی چاہیے اور نصاب کی تاریخی کتابیں ’مجلس اقوام‘ کی نگرانی میں لکھوائی جانی چاہئیں جس کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور روس سے ایک ایک معاون کی خدمات حاصل کی جائیں ۔ تاریخ کو عالمی تاریخ ہوناچاہیے ،نہ کہ قومی تاریخ اور اسے جنگوں کے بجائے ثقافتی اہمیت کے معاملات پر زور دینا چاہیے۔ جس حد تک لڑائیوں کاپڑھانا ضروری ہو، وہ صرف فاتحانہ اور دلیرانہ کارناموں کے زاویۂ نگاہ سے نہ پڑھائی جائیں ۔ طالب ِعلم میدانِ جنگ میں زخمی سپاہیوں کے درمیان ٹھہریں اور اُنہیں غیر آباد علاقوں میں بے گھر لوگوں کی حالت ِزار کا احساس دلایا جائے اور نیز اُنہیں ان تمام مظالم اور بے انصافیوں سے آگاہ کیاجاناچاہیے جن کے مناظر لڑائی میں نظر آتے ہیں ۔ موجودہ حالت میں تقریباً تمام تعلیم جنگ کی عظمت نمایاں کرنے والی ہے۔ مدارس کی تعلیم کے مقابلے میں صلح کل کی داعی جماعت کی تمام مساعی بے اثر ہیں ۔ یہ حالت بالخصوص ان مدارس کی ہے جو اُمرا کے بچوں کے لیے مخصوص ہیں اور جو ہر جگہ ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے غربا کے مدارس کے مقابلے میں پست تر ہیں ۔ بچوں کو مدارس میں دوسری اقوام کے نقائص تو بتا دیے جاتے ہیں لیکن اپنی قوم کے نقائص نہیں بتائے جاتے۔ دوسری اقوام کے نقائص جاننے سے انسان میں اپنے آپ کو حق پر سمجھنے اور جنگجو بننے کے جذبات پیداہوتے ہیں ، حالانکہ اپنے عیوب سے باخبر رہنا مفید ہوتا ہے۔