کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 81
ہے جس کی زد میں بدقسمتی سے لوگ آجاتے ہیں اور جس سے بچاؤ کے لیے اُنہیں ذہنی اور اخلاقی طور پر مستحکم بنایا جاناچاہیے۔
بلاشبہ جذبۂ قومیت ہمارے عہد کی سب سے زیادہ خطرناک بُرائی ہے جو شراب نوشی، مسکرات، کاروباری بددیانتی اور اس طرح کی دیگر برائیوں سے بھی خطرناک ہے جن سے بچاؤ رسمی اخلاقی تعلیم کا منشا ہے۔ تمام وہ لوگ جو دنیاے جدید کا جائزہ لینے کی اہلیت رکھتے ہیں ، جانتے ہیں کہ جذبۂ قومیت کی وجہ سے ہماری تہذیب کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس حقیقت سے تقریباً تمام وہ لوگ آشنا ہیں جو بین الاقوامی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود قومی دولت کو ہر جگہ اس تباہ کن بُرائی کی اشاعت اور تقویت پر صرف کیاجارہا ہے۔ جو لوگ اس خیال کے ہیں کہ بچوں کو یہ نہ سکھایاجائے کہ وہ لوگوں کے قتل عام کو انسان کا بہترین عمل خیال کریں ، اُنہیں غدار اور اپنے ملک کے سوا باقی تمام ملکوں کادوست بنا کر بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔یہ خیال ہوسکتا تھا کہ چونکہ والدین کو بچوں سے قدرتی لگاؤ ہوتاہے، اس لیے اُنہیں یہ خیال دکھ دے گا کہ ان کے بچے عذاب میں مبتلا ہوکر مریں ، لیکن صورتِ حال یہ نہیں ہے۔ اگرچہ خطرہ یقینی ہے لیکن اکثر ممالک میں اقتدار کے مالک ان تمام کوششوں کو جو اس خطرے کی روک تھام کے لیے کی جارہی ہیں ، ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ فوجی ملازمت کو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ’شریف ترین اہتمام‘ کہا جاتاہے اور نوجوانوں کو اس امر سے آگاہ کرنے کے لیے ایک لفظ نہیں کہا جاتا کہ اگر ان کا ملک طاقتور ہے تو فوجی اقدامات دفاعِ ملک کے بجائے زیادہ تر دوسرے ممالک کے خلاف جارحانہ اقدامات پر ہی مشتمل ہوں گے۔
حب ِ وطن کی تعلیم کے خلاف کئی اعتراض ہیں ؛ پہلا اعتراض تو وہی ہے جس پر ہم ابھی بحث کرچکے ہیں ، یعنی جب تک جذبۂ قومیت کازہر کم نہ ہوگا، اُس وقت تک تمدن کی بقا کی کوئی صورت نہیں ۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جس ادارے میں لوگوں کو انسانوں کے قتل کی تعلیم دی جارہی ہو، وہاں اُنہیں مہذب انسانی نصب العین کی تعلیم دینا بے حد دشوار ہے۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ نفرت کی تعلیم جو جذبۂ قومیت کاایک ضروری حصہ ہے، بذاتِ خود ایک بُری چیز ہے۔