کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 80
بارے میں درست ہے ، وہی ستاروں اور دھاریوں والے یا کسی دوسری طاقتور قوم کے جھنڈے کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ تمام مغربی ممالک میں لڑکے لڑکیوں کو سکھایا جاتاہے کہ ان کی نہایت اہم سماجی وفاداری اس ریاست کے ساتھ ہے جس کے وہ شہری ہیں اور ان کے ذمے ریاست کی طرف سے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جس طرح اُنہیں حکومت کہے، وہ ویسا ہی کریں ۔اس خیال سے کہ مبادا وہ اس نظریے پراعتراض کر بیٹھیں ، اُنہیں غلط تاریخ،غلط سیاسیات اور غلط اقتصادیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔اُنہیں غیر ممالک کی بداعمالیوں کی روداد سنائی جاتی ہے، لیکن اپنی حکومت کی بداعمالیوں کی نہیں ۔ اُنہیں یہ بتایا جاتاہے کہ تمام وہ جنگیں جن میں ان کے ممالک نے حصہ لیا ہے، دفاعی جنگیں ہیں لیکن دوسرے ممالک کی جنگیں جارحانہ ہیں ۔اُنہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جب ان کا ملک خلافِ توقع کسی دوسرے ملک کو فتح کرلیتا ہے تو اس کا مقصد تمدن، انجیل کی روشنی، اخلاقِ حسنہ، امتناعِ مسکرات یااسی طرح کے اور ایسے ہی بلند مقاصد کی اشاعت ہوتی ہے؛ نیز اُنہیں بتایاجاتا ہے کہ دوسرے ممالک کا کوئی معیارِ اخلاق نہیں اور جیسا کہ انگریزوں کا قومی ترانہ کہتاہے: ’’قدرت کا یہ فرض ہے کہ دشمنوں کے بدمعاشانہ مکروفریب کو تہس نہس کردے۔‘‘ قدرت کا یہ فرض ایسا ہے جس کی بجا آوری کے لیے وہ ہمیں آلۂ کار بنانے میں تامل نہیں کرے گی۔ حق یہ ہے کہ جب کسی قوم کو دوسری قوم سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ اس قدر جرائم کاارتکاب کرتی ہے جتنے اس کی مسلح افواج سے بن پڑتے ہیں ۔ عام شہری بلکہ مہذب شہری بھی اُن سرگرمیوں کو سراہتے ہیں جن کی وجہ سے یہ جرائم واقع ہوتے ہیں کیونکہ نہ تو اُنہیں یہ علم ہوتا ہے کہ کیا کچھ ہورہا ہے اور نہ وہ واقعات کو صحیح پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ایک عام شہری نادانستہ طور پر استحصال کی خاطر قتل و خون میں شریک ہونے پر رضا مندی ہوجاتا ہے۔ اس رضامندی کی ذمہ داری زیادہ تر تعلیم پر ہے۔ بعض لوگ اخبارات کوبُرا بھلا کہتے ہیں لیکن میرے رائے میں وہ اس معاملے میں غلطی پر ہیں ۔ اخبارات ویسے ہی ہوں گے جیسے عوام چاہیں گے اور عوام بُرے اخبارات پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی تعلیم برے طریقے پر ہوتی ہے۔ قوم پرستانہ جذبۂ حب ِ وطن مدرسے میں سکھائے جانے کے بجائے ایسا اجتماعی مرض