کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 8
کہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں خود اسرائیل ایک غیرقانونی ریاست ہے !! ۱۹۱۷ء میں پہلی جنگ ِعظیم کے دوران جرمنی اور ترکی پر فتح حاصل کرنے کے لئے برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھربالفور نے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اس جنگ میں برطانیہ کی مالی امداد کریں گے تو اس کے عوض برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر ایک نئی یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد دے گا۔ بالفور کے اس وعدے کو ’اعلانِ بالفور‘ کہا جاتا ہے اور اسی اعلان کی روشنی میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کرکے یہاں اسرائیل قائم کردیا۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۹۴۷ء میں قرارداد ۱۸۱کو اکثریت کے ساتھ منظور کیا جس میں کہا گیا تھا کہ یروشلم کو انٹرنیشنل کنٹرول میں دیا جائے گا، لیکن اسرائیل نے اس قرارداد کو تسلیم نہیں کیا اور یروشلم پر اس کا قبضہ برقرار ہے۔ کشمیر کی طرح فلسطین پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونا مسلمانوں میں بے چینی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مسلمان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کریں تو دہشت گرد قرار پاتے ہیں اور اسرائیل و بھارت ان قراردادوں کی دھجیاں اُڑا کر بھی امریکا کے منظور نظر ہیں ۔ یہ ظلم جاری رہا تو دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے معروف اخبار ہارٹیز نے ۳۱دسمبر ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ پر حملے کا فیصلہ چھ ماہ قبل جون ۲۰۰۸ء میں کرلیا تھا۔ اس حملے کا تعلق حماس کے دیسی ساخت کے کریکر نما راکٹوں سے نہیں بلکہ ۲۰۰۶ء میں لبنان کی جنگ میں اسرائیل کی شکست سے تھا۔ اسرائیل حماس کو ختم کرکے خود کو ناقابل شکست ثابت کرنا چاہتا تھا تا کہ فروری ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں حکمران اتحاد کامیابی حاصل کرسکے، لیکن اسرائیل ایک دفعہ پھر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ قطر اور موریطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردیئے ہیں ۔ [حامد میر: ۲۶/جنوری ۲۰۰۹ء] اسرائیل ایک دہشت گرد تنظیم اسرائیل کے وجود کاکھلے ظلم اور غاصبانہ ومجرمانہ قبضے پر مبنی ہونا خود اس کے بانیوں نے تسلیم کیا ہے۔ اس ناجائز ریاست کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے ورلڈ جیوش کانگریس