کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 79
تو سیاسی ہے اور نہ اقتصادی۔ یہ ایک آدمی کا احساس ہے اپنے وطن کے حق میں نہ کہ دوسرے ملکوں کے خلاف۔ یہ جذبہ اپنی ابتدائی صورت میں اُن دیہاتیوں کے سوا، جنہیں سیر و سیاحت کا بہت کم اتفاق ہوا، دوسرے لوگوں میں بمشکل پایا جاتا ہے۔ جو شہری ہمیشہ اپنی سکونت کوبدلتا رہے اور جس کے پاس زمین کاکوئی ایسا ٹکڑا نہ ہو جسے وہ اپنا کہہ سکے، اس میں یہ ابتدائی جذبہ جس سے حب ِوطن کااحساس پیدا ہوا ہے، دیہاتی مالکان زمین یاکسانوں کے مقابلے میں بہت کم ہوگا۔ اس کے بجائے شہری میں ایک اور احساس ہوگاجو زیادہ تر مصنوعی اور اس کی تعلیم اور اخبارات کی پیداوار ہوگااور تقریباً مکمل طور پر ضرر رساں ہوگا۔ اس جذبے کی اساس وطن اور اہل وطن کی محبت پر اس قدر نہیں ہوتی جتنی دوسرے ممالک کی نفرت اور ان پر قبضہ کرنے کی خواہش پر ہوا کرتی ہے۔ تمام بُرے جذبات کی طرح یہ جذبہ بھی وفاداری کے بھیس میں جلوہ گر ہوتاہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی انسان ایک ایسے قابل نفرت جرم کا مرتکب ہو جس کے نام سے بھی وہ ڈر کر پیچھے ہٹ جائے تو پہلے اس کے دل میں مہا بدمعاشوں سے وفاداری کا جذبہ پیدا کیجیے، پھر اس جرم کو وصف ِ وفاداری کے بھیس میں اس کے سامنے لائیے، حب ِ وطن اس طریق عمل کی بہترین مثال ہے؛ مثلاً قومی جھنڈے کے احترام کا سوال ہی لیجیے، جھنڈا جنگجو قوم کا نشان ہوتاہے۔ یہ دل میں لڑائی، جنگ، فتح اور بہادری کے کارناموں کے خیالات پیدا کرتا ہے۔ برطانوی جھنڈا ایک انگریز کو نیلسن اور ٹریفالگر(Trafalgar) کی یاد دلائے گا، نہ کہ شیکسپیئر، نیوٹن اور ڈارون کی۔
جوکام انسانی تہذیب کی ترقی کے سلسلے میں انگریزوں نے کیے ہیں وہ قومی جھنڈے تلے نہیں کیے گئے اور جب اس جھنڈے کی تعظیم کی جاتی ہے تو یہ چیزیں ذہن میں نہیں آتیں ۔ انگریزوں نے اپنے بہترین کارنامے انگریزوں کی حیثیت میں نہیں بلکہ افراد کی حیثیت میں انجام دیے ہیں ۔جو کارنامے انگریزوں نے انگریز ہونے کی حیثیت میں یا اس احساس کے ماتحت کہ وہ انگریز ہیں ، انجام دیے ہیں ، کم قابل تعریف قسم کے ہیں ، اور یہی وہ کارنامے ہیں جن کی تعریف قومی جھنڈا ہم سے کراناچاہتاہے۔ جو بات انگریزی قومی جھنڈے کے