کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 78
دفاع ہوتا ہے، استعمال کیا جاتا ہے؛ مثلاً جب یہ معلوم ہوا کہ ٹرانسوال میں سونا موجود ہے تو حکومت ِبرطانیہ نے اس پر حملہ کردیا، اور لارڈ سالسبری نے قوم کو یقین دلایا کہ ہمارا مقصد سونے کی کانیں حاصل کرنا نہ تھا، لیکن ہم کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ ہی گئے جہاں سونے کی کانیں موجود تھیں اور جب لڑائی ختم ہوئی تو ہم نے اپنے آپ کو ان کا مالک پایا۔
ایک اور مثال لیجیے؛ ہرشخص جانتا ہے کہ انگریز جنوبی ایران میں وہاں کی باشندوں کی بھلائی کے لیے گئے تھے، لیکن یہ امر مشکوک ہے کہ اگر ایرانی اس علاقے کے باشندے نہ ہوتے جہاں تیل کا بے اندازہ ذخیرہ موجود ہے تو آیا ہم ان کی بہتری میں اتنی دلچسپی لیتے؟ وسطی امریکہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بعض کارناموں کے متعلق بھی اس طرح کی باتیں کہی جاسکتی ہیں ۔اسی طرح منچوریامیں جاپان کے جانے کا محرک بھی شریف ترین جذبہ تھا لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ وہ جاپانیوں کے مقاصد سے ہم آہنگ واقع ہوا ہے۔
یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اکثر طاقتور ریاستوں کی حالیہ غیر ملکی سرگرمیوں کامقصد یہ ہے کہ مسلح افواج کی امداد یا ان کی دہشت سے کام لے کر کمزور حکومتوں سے وہ دولت ہتھیالی جائے جو قانونی طور پر ان کی اپنی ملکیت ہے۔ اس قسم کی سرگرمیاں اگر اَفراد سے نجی طور پرسرزد ہوں تو جرم میں شمار ہوتی ہیں اور اگر بہت وسیع پیمانے پرنہ ہوں تو ان کے لیے سزا بھی دی جاتی ہے، لیکن اگر یہ قوموں سے صادر ہوں تواہل ملک اُنہیں قابل ستائش سمجھتے ہیں ۔
اس فکر و نظر سے میں اپنے اصل موضوعیعنی مدرسوں میں حب ِ وطن کی تعلیم پر پہنچ گیا ہوں ۔ اس تعلیم پر تنقید سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اس کے منشا بلکہ اس کے حقیقی اثرات کے متعلق بھی وضاحت سے کام لیں ۔ حب ِ وطن کا منشا اس کے حامیوں کے خیال کے مطابق ایک ایسی چیز ہے جو بڑی حد تک اچھی ہے۔ گھر کی محبت اور اپنے وطن کی محبت بلکہ ایک خاص حد تک اس کے کارناموں پر فخر کرنا جہاں تک وہ فخر کے مستحق ہیں ، یہ چیزیں مذموم نہیں ۔ یہ ایک مختلف الاجزا جذبہ ہے جو کچھ تو وطن کی محبت اور اس کے مانوس قرب و جوار سے متعلق ہے اور کچھ اس جذبے سے وسیع تر خاندانی محبت سے مماثل ہے۔
اس جذبے کی اساس کچھ تو جغرافیائی اورکچھ حیاتیاتی ہے لیکن یہ ابتدائی جذبہ بذاتِ خود نہ