کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 77
کے کردار پر نہیں ہوتا بلکہ اُس مقصد پر ہوا کرتا ہے جس کی خاطر لوگوں کی تنظیم کی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا دور دراز خیالات کے اظہار کامقصد ان عجیب نتائج تک پہنچنا ہے جو انسانوں کی اُس تنظیم سے صادر ہوتے ہیں جسے ’ریاست‘کہتے ہیں ۔ تقریباً تمام مہذب ممالک میں ریاست ان تمام تنظیموں سے زیادہ طاقتور ہے جن کے ساتھ انسان کاتعلق ہوتاہے، اس لیے حکومت کا رکن ہونے کی حیثیت سے اس کے مقاصد سیاسی لحاظ سے دوسرے تمام مقاصد کے مقابلے میں بہت زیادہ مؤثر ہوتے ہیں ، اس لیے اس مسئلے پر غور کرنا اہم ہوجاتا ہے کہ زمانۂ حاضر کی ریاست کے مقاصد کیا ہیں ؟ ریاست کے فرائض کچھ تو داخلی ہوتے ہیں اور کچھ خارجی، اس لیے میں مقامی حکومت کو بھی ریاست کے فرائض میں شامل کرتاہوں ؛ مجملاً یوں کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کے داخلی فرائض تو اچھے ہیں لیکن خارجی برے۔ یہ بیان بلا شبہ اتنا سادہ ہے کہ حرف بہ حرف درست نہیں ہوسکتا لیکن یہ اوّلین مفید تخمینے کا قائم مقام ہے۔ حکومت کے داخلی فرائض میں سڑکیں ، روشنی، تعلیم، پولیس، قانون اور ڈاک خانہ وغیرہ شامل ہیں ۔ ملکی انتظام کی تفصیلات کے بارے میں تو کسی کو اختلاف ہوسکتاہے لیکن صرف ایک نراجی ہی یہ کہے گاکہ یہ مقاصد بہ ذاتِ خود غیر پسندیدہ ہیں ۔ جہاں تک ریاست کی داخلی سرگرمیوں کا تعلق ہے، وہ مجموعی طور پر باشندگانِ ملک کی وفاداری اور اِمداد کی مستحق ہے ! جب ہم اس کے خارجی مقاصد کی طرف آتے ہیں تو معاملہ مختلف ہوجاتا ہے۔باقی دنیا کے معاملے میں ایک بڑی ریاست کے مقاصد دو ہوتے ہیں ۔ جارحانہ حملوں کا دفاع اور غیر ملکی وسائل کے استعمال میں باشندگانِ ملک کی امداد۔ جارحانہ حملوں کا دفاع، جب خطرہ واقعی ہو اور حملے کو روکنے کے لیے ضروری نظر آئے تو ظاہر ہے کہ اسے مفید قرار دیا جاسکتاہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جو ذرائع حملوں کی روک تھام کے لیے درکار ہیں ، وہی دوسرے ممالک کے استحصال میں کارآمد ہوتے ہیں ۔ دنیا کی طاقتور ریاستوں کا مقصد کمزور ملکوں کی محنت اور ان کی معدنی دولت سے اقتصادی خراج وصول کرنا ہے اور اس خراج کی وصولی کے لیے مسلح افواج کو جن کا براے نام مقصد