کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 74
نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بجائے جب کبھی کوئی اسلامی قانون نافذ کرنے کا معاملہ پیش آئے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے جیسا کہ سود کے خلاف قانون اور حسبہ بل کے معاملات میں دیکھا گیا۔ 3. ان اسلامی نما شقوں کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ اُنہیں خود ’ہم نے‘ دستور میں رکھا ہے اور اگر ’ہم‘ چاہیں تو اُنہیں ختم بھی کرسکتے ہیں گویا اصل حاکمیت ’ہماری ‘ ہی ہے ۔ پھر ان شقوں پر مبنی شرعی قوانین کی نوعیت کسی بالادست قانون کی نہیں بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے ایک ’مشورے‘ کی ہوتی ہے جنہیں عدالت ِ عظمیٰ چاہے تو ردّ کرسکتی ہے، گویا اصل حاکمیت تو دستوری قانون ہی کی ہوگی اور شارع کی بات بس ایک مشورے کے طور پر کہی اور سنی جا سکتی ہے۔العیاذباللہ 4. اسلامی ریاست صرف قرآن و سنت کے خلاف فیصلہ ’نہ‘ کرنے کی پابند نہیں ہوتی بلکہ ہر فیصلہ قرآن وسنت اور اسلامی علمیت کی روشنی میں کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ گویا مسلمانوں پر شریعت اسلامیہ کی پابندی صرف سلبی نہیں بلکہ ایجابی بھی ہے۔ شرع کے دائرے کو تشکیل قانون میں صرف اس حد تک محدود کرنا کہ قانون کا کوئی فیصلہ شرع کے خلاف نہ ہو، اس مفروضے پر مبنی ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی دائرہ عمل ایسا بھی ہے جہاں شارع نے انسان کو اپنی خواہشات پر چلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا ہے نیز قانون کا دائرہ شرع کے دائرے سے وسیع تر ہے۔ جبکہ اصل معاملہ اس کے عین برعکس ہے کہ شریعت ہمیں ہر معاملے کا حکم قرآن و سنت کی روشنی میں طے کرنے کا طریقہ بتاتی ہے اور اسلامی ریاست کا یہ وظیفہ ہوتا ہے کہ وہ براہ راست کتاب وسنت یا قابل اجتہاد مسائل میں اہل علم کی شرعی رہنمائی سے تمام معاملات میں شرعی موقف اپنائے۔ شرع محض فرائض ، واجبات اور محرمات کا ہی نام نہیں بلکہ اس کا دائرہ سنن، مندوب، مستحب، مکروہ ، اساء ت و خلافِ اولیٰ کے درجات تک اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ پیدائش سے لے کر موت تک کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ انسانی فعل بھی اس کی گرفت سے باہر نہیں ۔ لہٰذا طے کرنے کی بات یہ نہیں کہ کوئی فیصلہ شرع کے خلاف نہ ہو بلکہ یہ ہے کہ ہر فیصلہ شرع کے تقاضوں کے مطابق ہو،کیونکہ اوّل الذکر رویہ شرع کو فرائض اور محرمات تک محدود کردیتا ہے۔ اطلاع : زیر نظر شمارہ جنوری اور فروری ۲۰۰۹ء کا مشترکہ ہے، قارئین نوٹ فرما لیں ۔ شکریہ