کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 73
مزید برآں جیسے ایک فرد کا ایمان معتبر ہونے کے لئے چند شرائط ہیں بالکل اسی طرح ریاست بھی اسلامی تب ہی ہوتی ہے جب وہ اسلامی اصولوں کے مطابق قائم ہو، گو کہ اس میں عملی خامیاں قبول کی جاسکتی ہیں مگر اُصولی باتوں پر ایمان لانا تو شرط ہے۔ اکثر و بیشتر موجودہ مسلم حکومتیں تو سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی ہیں جہاں اقتدار کا منبع عوام کی خواہشات کو مان لیا گیا ہے۔ شرع کے بجائے ہیومن رائٹس پر مبنی دستور نافذ ہے تو یہ اسلامی کیسے ہوگئیں ؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم سرمایہ داری کو صحیح طریقے سے پہچانتے نہیں جس کی وجہ سے ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر مسلمان عیسائی قانون کے مطابق ریاست چلائیں تو کیا وہ اسلامی ریاست ہوگی؟ بالکل اسی طرح اگر مسلمان سرمایہ دارانہ قانون کے مطابق ریاست چلائیں گے تو وہ ریاست اسلامی نہیں ہوگی، کیونکہ سرمایہ داری بھی عیسائیت ہی کی طرح ایک مستقل کافرانہ مذہب ہے۔ شبہ نمبر۲:کیا پاکستان کے آئین میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہ کرسکنے کا آرٹیکل اسے اسلامی ریاست نہیں بنا دیتا ؟ 1. ۱۹۴۹ کی قرارداد مقاصد ہو یا ۱۹۷۳ کا دستور، علماء اس میں ایسے ہی دھوکہ کھا گئے جیسے سترہویں ترمیم کے وقت مشرف سے دھوکہ کھا گئے تھے۔ علماء پر دستوری ریاست و ہیومن رائٹس کی حقیقت صحیح طریقے سے واضح نہ ہو سکی تھی جس کی بنا پر اُنہوں نے دستور میں مذہب کی پیوندکاری کرنے کی کوششیں کیں ، حالانکہ جس شے کو اُصولاً رد کرنا چاہئے تھا، وہ بذاتِ خود ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری قانون ہے جو کہ کتاب و سنت کا عملی متبادل ہے۔ ہیومن رائٹس پر مبنی دستور میں مذہبی پیوندکاری کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عقیدۂ تثلیث میں توحید تلاش کرنا۔ ہوسکتا ہے، علما نے ۱۹۴۹ء میں یہ پوزیشن سوشلزم کے بڑھتے ہوئے خطرات کی بنا پر اختیار کی ہو ،واللہ اعلم۔ لیکن اصل غلطی ۱۹۴۹ میں نہیں بلکہ ۱۹۲۰ء سے شروع ہوئی کہ جب خلافت ِاسلامی برپا کرنے کے لئے انقلابی جدوجہد سے مایوس ہوکر بعض علما نے ریاست کو غیر اقدار ی سمجھ کر تحریک ِخلافت کے بجائے تحریک ِاستخلاصِ وطن کا ساتھ دینا شروع کیا۔ 2. قرار داد مقاصد ہو یا ۱۹۷۳ کا دستور، یہ شقیں تو ریاست کو کافرانہ نظام کے ماتحت چلانے کا بہانہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شقیں ہمیشہ طاقِ نسیاں پر پڑی رہتی ہیں اور ہمارے ملک میں بے شمار قوانین خلافِ شرع ہونے کے باوجود پچھلے ۳۴ سالوں سے عدلیہ ٹس سے مس