کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 72
این جی اوز وغیرہ۔ اس کے اظہار کے مختلف طریقے ہیں جہاں تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی یا محبت نہیں بلکہ اغراض ہوتی ہیں ۔ جتنے زیادہ افراد ان اداروں پر منحصر ہوتے چلے جاتے ہیں ، سول سوسائٹی اتنی ہی مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے ۔ نتیجتاً ذاتی اغراض و حقوق کی ذہنیت و سیاست پختہ ہوتی چلی جاتی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا اصل مقصد ہے ۔ سول سوسائٹی کی اکائیاں تبھی وجود میں آتی ہیں جب خاندان کا ادارہ کمزور ہوجاتا ہے، یہ اکائیاں فرد کی زندگی کے اس خلا کو پر کرنے کے لئے وجود میں آتی ہیں جو روایتی اداروں کے ختم ہوجانے سے پیدا ہوتا ہے۔ سول سوسائٹی درحقیقت مذہبی معاشرت کی ضد ہے، جہاں تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی ، محبت اور باہمی تعاون کا جذبہ ہوتا ہے اور ان جذبات پر مبنی تعلقات سے جو فطری ادارہ تشکیل پاتا ہے، اسے خاندان و برادری کہتے ہیں جو اسلامی معاشرت کا جز اوّل ہے ۔ پوری اسلامی تاریخ میں ہماری معاشرت اسلامی تھی، تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی تھی جس کی وجہ سے خاندان مضبوط تھے، حرص و حسد کو معاشرتی عموم حاصل نہ تھا۔ مخلوط معاشرت کی وبا ظاہر نہ ہوئی تھی اورتقریباً تمام افراد تزکیۂ نفس کے لئے بھی عبادات اور شریعت کی دیگر رہنمائی پر عمل کرتے تھے۔ موجودہ مسلم ریاستوں میں جو معاشرت عام ہورہی ہے وہ اسلامی نہیں بلکہ سول سوسائٹی ہے جس کا سب سے بڑا اظہار خاندان و برادری کی کمزوری، بے حیائی و فحاشی کے فروغ اور افراد کاتربیت گاہوں سے لاتعلق ہوجانے کی صورت میں واضح ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں جس نوعیت کی حکمت ِعملی پر عمل پیرا ہیں ، وہ سول سوسائٹی کو مضبوط اور مذہبی معاشرت کو کمزور کرنے کے لئے مؤثر ترین ہتھیار ہے۔ بعض شبہات شبہ نمبر۱: مسلم ممالک میں نماز، جمعہ، نکاح، حج و دیگر فرائض ادا کرنے کی پوری آزادی ہے تو پھر ان پر ’کافرانہ یا فاسقانہ ریاست ‘ کا لیبل کیوں چسپاں کیا جائے؟ یہ جتنے اُمور گنوائے گئے ہیں ،ان سب کی ادائیگی کی اجازت تو دورِ برطانیہ میں بھی تھی، نیز موجودہ ہندوستان کے مسلمان بھی اُنہیں آزادی کے ساتھ ادا کرتے ہیں ، اور تو اور یورپ اور امریکہ وغیرہ میں بھی نماز، جمعہ، نکاح، حج و دیگر کئی فرائض اسلامی ادا کرنے کی پوری آزادی ہے تو کیا یہ سب ملک دارالاسلام ٹھہریں گے؟