کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 71
شریعت رہی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہماری عدالتوں میں شرعی نظام قضا قائم تھا جہاں اسلامی علمیت کے ماہرافراد شریعت کی روشنی میں فیصلے کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ مغلیہ سلطان عالمگیر نے کوئی دستور نہیں بلکہ فقہاے کرام کے فتاویٰ کو جمع کرکے اسے اپنی سلطنت کا قانون بنادیاتھا جس سے معلوم ہوا کہ افراد کے معاملات اس دور کے مسلمان حکمران کی دانست میں شرعی احکامات کے مطابق طے ہوتے تھے۔قطع نظر اس کے کہ وہ کسی خاص فقہ کی تعلیمات کے مطابق ہوں ۔ اسی طرح ہمارے ہاں حسبہ کا ادارہ بھی قائم تھا جس کا مقصد نہی عن المنکر کی بنیاد پر لوگوں سے اطاعت کرانا تھا۔ الغرض حاکمیت ِدستور اور نفاذِ شریعت و اعلاے کلمۃ اللہ دو متضاد مقاصد ہیں ، نظامِ قضا و حسبہ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب اسلامی علمیت اور اس کے حاملین افراد کا معاشرتی غلبہ ہو نہ کہ دستور اور سوشل سائنسز کا۔
پنجم : مذہبی معاشرت بمقابلہ سول سوسائٹی
معاشرے سے مراد وہ ادارے ہیں جو افرادکے ان تعلقات سے وجود میں آتے ہیں جنہیں وہ برضا و رغبت اختیار کرتے ہیں ۔ کسی بھی معاشرتی صف بندی کی نوعیت افراد کے ان مقاصد اور ان اقدار پر مبنی ہوتی ہے جن کے حصول کی خاطر وہ آپس میں تعلقات قائم کرتے ہیں ۔ یعنی معاشرتی تنظیم کی ہیئت اور نوعیت اس بات پر منحصر ہے کہ جو افراد یہ معاشرہ بنا رہے ہیں ان کے میلانات ، رجحانات اور خواہشات کیا ہیں اور وہ دوسروں سے تعلقات استوار کر کے کن مقاصد کا حصول چاہتے ہیں ۔ چونکہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر فرد اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا چاہتا ہے، لہٰذا لوگ جس بنیاد پر اپنے تعلقات قائم کرتے ہیں وہ ان کی ’ذاتی غرض ‘ (Self-interest)ہوتی ہے یعنی ہر فرد ان تعلقات و روابط کے ذریعے اپنی کسی ذاتی خواہش ہی کی تکمیل کرنا چاہتا ہے ۔ ایسے تعلقات سے تعمیر ہونے والے معاشرے کو مارکیٹ یا سول سوسائٹی کہتے ہیں جہاں ہر تعلق اغراض کی طلب و رسد (Demand & Supply) کے اُصول پر قائم ہوتا ہے۔ ایسی سوسائٹی میں ہر شخص اپنی اغراض کی بنیاد پر interest-groups (غرضی گروہ) بناتا ہے، مثلاً محلہ و مارکیٹ کمیٹیاں ، مزدور تنظیمیں ، اساتذہ و طلبہ تنظیمیں ، صارفین و تاجروں کی یونین، عورتوں اور بچوں کے حقوق کی تنظیمیں و دیگر