کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 70
کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ شراب پی کر کار چلائے تو یہ ٹھیک نہیں ، کیونکہ اگر تمام افرادکو ایسا کرنے کی اجازت دی جائے تو کوئی بھی شخص گاڑی نہیں چلا سکتاجس سے واضح ہوا کہ شراب پینا توٹھیک عمل ہے مگر شراب پی کر گاڑی چلانا غلط ہے۔ اس جاہلانہ اُصول کے مطابق ایک بھائی کا اپنی بہن سے ، باپ کا بیٹی سے اور بیٹے کا ماں سے بدکاری کرنا عین درست عمل ہے، کیو نکہ اگر تمام افراد ایسا کرنے لگیں تو بھی ایسا کرنے میں افراد کی خواہشات میں ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔اَخلاقیات کے اسی اصول کو کانٹ (Kant)کا آفاقی اُصول (Principle of universalisability)کہا جاتا ہے۔ اس اصول کے مطابق ایک فرد کا ہر وہ فعل اور خواہش قانوناًجائز ہے جسے وہ خواہشات میں ٹکراؤ آئے بغیر تمام انسانوں کو کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہوسکتا ہے۔
ب) ہر فرد کے اس مساوی حق کو ممکن بنانا کہ وہ دوسروں کو اپنی آزادی اس طرح استعمال کرنے پر مجبور کرسکے جس سے وہ دوسرا شخص اس فرد کی آزادی میں مداخلت نہ کر سکے یعنی اگر ایک باپ اپنی بیٹی کو یونیورسٹی کے کسی رات کے فنکشن میں جانے سے منع کرے تو اس بیٹی کو اس بات کا حق حاصل ہونا چاہئے کہ و ہ پولیس کو بلواکر اپنے باپ کو جیل بھجوا دے اور خود یونیورسٹی جا سکے۔ اسی طرح اگر ایک باپ اپنی اولاد کو نماز نہ ادا کرنے پر سرزنش کرے تو اولاد کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ باپ کو ان کی آزادی میں مداخلت کرنے سے روک سکیں ۔
دستور کے مطابق افراد کی خواہشات ہی وہ اساس ہیں جو ایک جمہوری معاشرے میں قانون سازی کی واحد بنیاد بن سکتی ہیں ، نیز یہ کہ افراداپنے اس حق کو اس طرح استعمال کریں کہ جس کے نتیجے میں افراد کی خواہشات میں اس طرح تحدید ہو کہ افراد کی آزادی میں بحیثیت مجموعی زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری اکثر و بیشتر ریاستیں ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری و جمہوری ریاستیں ہیں جس کا صاف مطلب ہوا کہ یہ لبرل سیکولر ریاستیں ہیں ۔ اس کے بر خلاف خلافت کا منصب نظامِ قضا کا تقاضا کرتا ہے جہاں فیصلے شرع کی روشنی میں طے کئے جاتے ہوں ۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پوری اسلامی تاریخ میں ریاستی قانون کی بنیاد