کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 7
دفاع کے لئے غزہ پر حملہ کردیا۔ میرے لئے حیرانی کی بات یہ ہے کہ مجھے غزہ میں ایک بھی فلسطینی ایسا نہیں ملا جو حماس کو اپنی تباہی کا ذمہ دار سمجھتا ہو۔ عام فلسطینی پوچھتا ہے کہ اگر اسرائیل نے حماس کو سزا دینی تھی تو پھر اقوامِ متحدہ کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں اور مساجد پر بم کیوں گرائے گئے؟ ۲۴جنوری کی رات غزہ کے القدس ہوٹل کی لابی میں انڈونیشیا کے ایک فوٹو گرافر احمد نے مجھے بتایا کہ وہ جنوری ۲۰۰۹ء کے پہلے ہفتے میں غزہ آگیا تھا۔ اس وقت تک غزہ میں کچھ لوگ حماس پر تنقید کرتے تھے، لیکن جب اسرائیل کی بمباری میں شدت آگئی تو فلسطینیوں کو یقین ہوگیا کہ اسرائیل کی لڑائی حماس کے ساتھ نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ احمد نے مجھے یاد دلایا کہ اسرائیل نے ۲۰۰۶ء میں لبنان میں بھی مساجد کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا اور ۲۰۰۹ء میں اسرائیل نے غزہ کی ۴۱ مساجد کو شہید کرکے اپنے خلاف جو نفرت پیدا کی ہے، یہ اگلے۴۱سال تک کم نہ ہوگی۔ احمد کا خیال تھا کہ امریکا اور اسرائیل مسلمانوں میں جمہوریت کے فروغ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں کو ترقی سے محروم کرنے کے لئے امریکا اور اسرائیل کی کوشش ہوتی ہے کہ یا تو جمہوریت کے نام پر مسلمانوں کو مغرب کی ذ ہنی غلام کرپٹ لیڈر شپ کے حوالے کردیا جائے یا پھر ان سے جمہوری اقدار کو چھین لیا جائے۔ ’الفتح‘ سے تعلق رکھنے والے محمود عباس کی حکومت کو غزہ کے فلسطینی ’کنگ آف کرپشن‘ کہتے تھے اور اسی لئے ۲۵جنوری ۲۰۰۶ء کو فلسطین میں الیکشن ہوا تو قانون ساز اسمبلی کی ۱۳۲میں سے ۷۴نشستیں حماس نے جیت لیں ۔ امریکا اور اسرائیل کو حماس کی جمہوری فتح ایک آنکھ نہ بھائی اور فوری طور پر حماس سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے اور مسلح مزاحمت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ہتھیار پھینک دے۔ دوسری طرف امریکا اور اسرائیل نے الفتح اور حماس کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی۔ حماس کو ایک طرف سے امریکا اور اسرائیل کے ناجائز دباؤ کا سامنا تھا اور دوسری طرف الفتح کی بلیک میلنگ کا سامنا تھا اور ان حالات میں جب فلسطین کے نام نہاد صدر محمود عباس نے امریکی دباؤ پر حماس کی منتخب حکومت کو توڑ دیا تو حماس کے اندر شدت پسندوں نے قوت حاصل کرلی اور اُنہوں نے اسرائیل پر چند دیسی ساخت کے راکٹ مار دیئے۔ ان راکٹوں سے اسرائیل کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ان راکٹوں پر شور مچانے والے بھول جاتے ہیں