کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 69
دوسرے لفظوں میں سائنسی علمیت کا مقصد انسان کو خود اپنا خدا بننے کا مکلف بنانا ہے۔ یہ تصورِ علم ایک ایسی شخصیت کا علمی جواز فراہم کرتا ہے جو انبیاے کرام کی تعلیمات سے کوسوں دور اور اخلاقِ رزیلہ سے متصف ہونے کے با وجود بھی معا شرے میں ایک با عزت علمی مقام پر فائز ہوسکتی ہے۔ یہ علمیت ایسا ریاستی لائحہ عمل فراہم کرتی ہے جس میں فیصلوں کی بنیاد شارع کی رضا کے بجائے لوگوں کی خواہشات ہوتی ہے۔ چونکہ موجودہ مسلم ریاستوں میں غالب علمیت یہی جاہلی علمیت ہے لہٰذا یہ کسی بھی معنی میں اسلامی خلافت کے ہم پلہ نہیں ہیں بلکہ جیسے جیسے ہمارے ممالک اس علمیت کے شکنجے میں پھنستے جارہے ہیں ، اتنا ہی زیادہ یہ استعمار کے وفادار اور طاغوتی نظام کے حامی و ناصر بنتے جا رہے ہیں ۔ چہارم : دستور (ہیومن رائٹس ) بمقابلہ شریعت (نظامِ عدل و قضا) کی بالادستی ہمارے ملکوں کا نظام قانون آئین یا دستور پر مبنی ہے اور دستور وہ شے ہے جو حاکمیت ِالٰہی کی نفی اور حاکمیت ِانسان کی بالا دستی قائم کرتا ہے اور نفاذِ شریعت کے امکانات کالعدم کردیتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ دستور کتابِ الٰہی کا متبادل ہے اور جمہوری ریاستوں میں اسے ویسی ہی تقدیس حاصل ہوتی ہے جیسی مذہبی ریاستوں میں کتابِ الٰہی کو۔ دستورمیں قانون سازی کی بنیاد ہیومن رائٹس ہوتے ہیں جسکے مطابق فرد کو اپنی آزادی استعمال کرکے خواہشات کی تسکین کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس قانون سازی کے دو بڑے مقاصد ہوتے ہیں : الف) ہر فرد کے اس حق کو ممکن بنانا کہ وہ زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل کرسکے (یعنی جو چاہنا چاہے، چاہ سکے اور اسے حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہو سکے) یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے کی عین ویسی ہی آزادی میں رکاوٹ نہ بنے۔یعنی اس بات کو طے کرنے کے لئے کہ افراد کو کیا کرنے کی اجازت ہوگی، اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ کیا تمام افراد کو اس عمل کی اجازت دینے کے بعد بھی اس عمل کو کرنا ممکن ہے یا نہیں ؟ مثلاً فرض کریں : ایک شخص چاہتا ہے کہ وہ شراب پئے،اب سوال یہ ہے کہ اگر تمام افراد ایسا کریں تو کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ چونکہ تمام افراد کو اس فعل کی اجازت دینے سے افراد کی خواہشات میں کوئی تصادم لازم نہیں آتا، لہٰذا شراب پینا بالکل درست عمل ہے ۔لیکن اگر