کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 68
بالکل اسی طرح مغربی سوشل سائنسز کا دائرۂ کار سرمایہ دارانہ معاشرے و ریاست کا جواز، اس کے امکانِ قیام کے لئے ضروری حالات کی نشاندہی و ریاستی لائحۂ عمل کی ترتیب و تنظیم کرنا ہے۔ جدید سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت، معاشرے و ریاست کی علمی توجیہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حدود کا تعین کرنے کے اُصول وضع کرتی ہیں جن کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معاشرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے۔ دوسرے لفظوں میں سو شل سائنسز کا دائرہ عمل ایک ایسے نئے دستور، نئے قانون اورنئے معا شرتی نظام و سیاسی ڈھانچے کا قیا م ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہو،جہاں کوئی رعایا (subjects) نہ ہو بلکہ سب شہری (citizens) ہوں ۔ اس پس منظر میں اسلامی تاریخ اور موجودہ ریاستوں پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ہماری پوری تاریخ میں جو علمیت غالب رہی، وہ اسلامی علمیت تھی جس کا ایک مظہر موجودہ درسِ نظامی ہے جو در حقیقت سلطنت ِمغلیہ میں ایک طرح کا ’سول سرونٹ کورس‘ تھا۔
چنانچہ ہماری تاریخ میں اسلامی علمیت ہی کی بنیاد پر ریاستی حکمت ِعملی وضع کی جاتی تھی، گوکہ اس حکمت ِعملی میں حکمران اپنے بعض ذاتی مفادات کو بھی شامل کردیتے تھے۔ اس کی مثال بالکل اسی طرح ہے جیسے دورِ حاضر میں ریاستی حکمت ِعملی سوشل سائنسز بالخصوص علم معاشیات کے اُصولوں سے طے کی جاتی ہے اور حکمران طبقہ اسی حکمت ِعملی کے اندر رہتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ بھی کرتا ہے۔
سب دیکھ سکتے ہیں کہ جوں جوں سائنسی علمیت (مادہ پرستانہ اِفادیت) کو عروج حاصل ہوتا ہے، اسی رفتار سے اسلامی علمیت معاشروں میں بے معنی ہوتی چلی جاتی ہے۔ سائنسی علم کا معنی لامحدود انسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے کائنات پر ارادۂ انسانی کا تسلط قائم کرنا ہے۔ سائنسی علمیت کے مطابق ’علم‘ رضا ے الٰہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں ، بلکہ تسخیر کا ئنا ت یا بہ الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کا نام ہے اور سائنسی علمیت اس جاہلانہ ذہنیت و جنون کو پروان چڑھاتی ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اس کے اپنے سوا ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے۔