کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 6
ہیں ، مگر افسوس ہمیں اس کی خبر ہی نہیں ہوتی!![محمد عطاء اللہ صدیقی: ۲/جنوری ۲۰۰۹ء] غزہ کا ایک سفر یہ ایک عجیب اتفاق تھا۔ تین دن کی جدوجہد کے بعد میں مصر کے سرحدی علاقے رفح سے غزہ میں داخل ہوا تو حماس کی بارڈر سیکورٹی اور امیگریشن کے اہلکاروں نے أہلا وسہلا في فلسطین کہتے ہوئے استقبال کیا۔ صرف چند سو گز پیچھے رفح میں مصری امیگریشن اور انٹیلی جنس کے کسی اہلکار نے تین دن میں ایک مرتبہ بھی مسکرا کر بات نہیں کی تھی، حالانکہ نہ تو مصر پربمباری ہورہی تھی اور نہ ہی مصر کو کسی اسرائیلی حملے کا خطرہ تھا۔ جہاں بمباری ہوئی، جہاں ۱۳۰۰سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، جہاں ۴۱مساجد شہید کی گئیں اور جہاں اقوامِ متحدہ کے اسکولوں پر بھی راکٹ برسائے گئے، وہاں کے سرحدی محافظوں نے مسکراتے چہروں کے ساتھ صرف تین منٹ میں ہماری امیگریشن مکمل کردی اور خوشگوار اتفاق یہ ہوا کہ جیسے ہی میں نے غزہ کی سرزمین پر قدم رکھا تو عشاء کی اذان شروع ہوگئی۔ مؤذن کی آواز اتنی خوبصورت اور لطیف تھی کہ چند لمحوں کے لئے میں سب کچھ بھول کر اس آواز میں ڈوب گیا۔ اذان ختم ہوئی تو میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور الجزیرۃ کے کیمرہ مین ندال کے ساتھ ایک ویگن میں بیٹھ گیا جو اس بارڈر چیک پوسٹ سے چالیس کلو میٹر دور ہمیں غزہ شہر لے جانے والی تھی۔ ندال قطر سے غزہ پہنچا تھا۔ اس کے والد کا تعلق یروشلم سے تھا لیکن ۱۹۶۷ء میں وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ندال اُردن میں پیدا ہوا اور اب قطر میں رہتا ہے۔ فلسطینی ہونے کے باوجود آج اس نے پہلی دفعہ فلسطینی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ اس کی زبان سے بار بار ماشاء اللہ اور الحمدللہ کے الفاظ نکل رہے تھے، لیکن جیسے ہی اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی مساجد اور عمارتیں اس کی نظروں کے سامنے سے گزرنے لگیں تو وہ خاموش ہوگیا۔ ہم دونوں ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا، اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے اور اسے سزا کون دے گا…؟ امریکی حکومت نے اسرائیل کی طرف سے غزہ پرتین ہفتے کی مسلسل بمباری کی ذمہ داری حماس پر عائد کی اور کہا کہ حماس نے اسرائیل پر راکٹ برسائے تھے اور اسرائیل نے اپنے