کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 5
مایوس کن تھی۔ میرے اندازے کے مطابق چالیس پچاس افراد بھی مشکل سے ہوں گے۔ یہ نہایت افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جو چھوٹے چھوٹے ایشوز پر بڑے بڑے جلوس نکالتی ہیں ، اُنہیں یہ توفیق ارزاں نہ ہوئی کہ وہ فلسطینی بے گناہ مسلمانوں کے اس قتل عام پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے۔
جن لوگوں نے ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کی طرف سے بیت المقدس پر قبضے کی خبر کے بعد اہل پاکستان کے جذبات کے الاؤ کا مشاہدہ کیاتھا، وہ یقینا اس قومی بے حسی پرافسردگی اور ملامت میں مبتلاہوں گے۔ مجھے بھی اس معاملے میں شدید ڈپریشن اور رُوحانی کرب سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ ہمیں بحیثیت ِقوم آخر کیا ہوگیا ہے؟ ہم اتنے سنگ دل اور شقی القلب کیوں ہوگئے ہیں ؟ عالم اسلام میں ہونے والے عظیم سانحات کے متعلق ہماری لاتعلقی اوربے پروائی کے اسباب کیا ہیں ؟ ہمارے ذہن بنجر کیوں ہوگئے ہیں اور ہمارے دلوں پر خزاں کیوں طاری ہوگئی ہے؟ہم زندہ ہوتے ہوئے بھی ایک مردہ قوم کیوں بن گئے ہیں ؟
کبھی میں سوچتا ہوں ، لاہور شہر میں میراتھن دوڑ کرائی جاتی ہے تو شہر کی سڑکیں آباد ہوجاتی ہیں ۔کھیل تماشے ہوں تو جگہ نہیں ملتی، مگر جب فلسطینی بھائیوں پرصہیونی اسرائیل کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں ، ان کی خبریں سن کر ہم کان کیوں لپیٹ لیتے ہیں اور ٹی وی پر المناک مناظر دیکھ کربھی ہمارے دلوں پر پڑے ہوئے شقاوت اور مردہ دلی کے پردے کیوں نہیں اُترتے؟
آج ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایک ’روشن خیال‘ اور’ترقی پسند‘ قوم بن گئے ہیں ۔ میں سوچتا ہوں کہ جس زمانے میں ہمیں ’تاریک خیال‘ اور ’رجعت پسند‘ قوم سمجھا جاتا تھا، وہ دور آج کے دور سے کہیں بہتر تھا، کم از کم ان دنوں میں ہمارے اندر انسانیت تو باقی تھی۔ افسوس! مادی دولت، ترقی اور ’روشن خیالی‘ کے بعد ہم انسانیت کی دولت سے محروم ہوگئے ہیں ۔
کاش کہ شاہی مسجد کی سیڑھیوں میں مدفون شاعر مشرق کو کوئی بتاسکتا کہ تیری قوم کا مزاج کتنا بدل گیا ہے۔ایک وہ بھی زمانہ تھا جب آپ کا بل میں کسی کوکانٹا چبھ جانے کی خبر سن کر ہندوستان کے جوانوں اور بزرگوں کو بے تاب ہوتے دیکھا کرتے تھے، مگر آج غزہ کے مسلمانوں پر وحشت و درندگی، بہیمیت اور فاشزم، بدترین ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے