کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 4
شامل ہیں ۔ کیا ہمارے ذرائع ابلاغ کے اس رویے کو مشرف دور کی ’سب سے پہلے پاکستان‘ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جائے…؟ قارئین کرام! ہمارے معروف کالم نگاروں کی فہرست دیکھ لیجئے،جواپنی کالم بازیوں سے نت نئی موشگافیوں میں مصروف رہتے ہیں اور شاید ہی کوئی معمولی سیاسی واقعہ ہو جو ان کے التفات کامستحق نہ سمجھا جاتا ہو۔ مگر ان کے قلم جو حق و صداقت اور عدل و انصاف اور حریت و آزادی کے ’ہمیشہ‘ ترانے گاتے ہیں ، نجانے غزہ کی تباہی کے متعلق ان کی سیاہی کیوں خشک ہوگئی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ امریکہ کی ناراضگی مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے؟ کیا ان کے اذہان صہیونی پراپیگنڈے سے متاثر ہیں اور وہ’حماس‘ کو ہی قصور وار سمجھتے رہے ہیں ؟ مگر ان سینکڑوں بچوں اور عورتوں کی فریادوں اور آہوں پر ان کے قلم حرکت میں کیوں نہیں آتے؟ اس کا آخر کیا جواب ہے، ان کے پاس…؟ ہماری حکومت کی طرف سے بھی اسرائیل کے خلاف ردّعمل انتہائی سست اور کمزور تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وزارتِ اطلاعات کے کسی افسر نے معمول کے مطابق صدرِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کے یک سطری بیانات میڈیا کو ارسال کردیئے۔ ۲۷ دسمبر کو رات گئے تک یہ بیانات سامنے نہیں آئے تھے۔ ۲۶/ دسمبر کو ٹی وی چینلز پر Tickersچلنا شروع ہوئے جس میں احتجاج کیاگیاتھا کہ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی ہے۔ اصل بیان قدرے تفصیلی انداز میں ۳۰/ دسمبر کو سامنے آیا۔ البتہ تب بھی صدرِ پاکستان اور وزیراعظم کی طرف سے اس عالمی سانحے پر رنج و غم کا اظہار کرنے کے لئے کسی پریس کانفرنس کااہتمام دیکھنے میں نہ آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت ِپاکستان نے اس معاملے میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی توقع عالم اسلام کے ایک باوقار ملک اور ایٹمی طاقت سے کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے عوام کی بے حسی بھی دل فگار اور اذیت ناک ہے۔ غزہ پر بمباری کے بعد چار دنوں میں جماعت ِاسلامی اور امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے لاہور میں جلوس نکالے مگر اس میں عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ مؤرخہ ۳/ جنوری بروز جمعۃ المبارک راقم مسجد ِشہداء میں نماز کی ادائیگی کے بعد چیئرنگ کراس سے گزرا۔ وہاں جماعت ِاسلامی کے کارکنوں نے احتجاجی جلوس نکالا ہوا تھا اور امیر العظیم خطاب کررہے تھے، جلوس کے شرکا کی تعداد انتہائی