کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 39
چھوڑ کر اس کے صرف دس فیصد کو لے کر غامدی صاحب کا گزارہ تو ہوسکتا ہے مگر اُمت مسلمہ اپنے دین کے نوے فیصد حصے سے نہ تو دست بردرا ہوسکتی ہے اورنہ اس کے صرف دس فیصد پر قناعت کر سکتی ہے۔ ع
جو تمہاری مان لیں ناصحا
تو رہے گا دامن دل میں کیا
4. دینی اصطلاحات کے ساتھ مذاق کا رویہ
غامدی صاحب اپنی لفاظی کے ذریعے دوسروں کو مغالطہ اورفریب دینے کے عادی ہیں ، ہم ان کے اس طریق واردات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ معروف دینی اصطلاحیں تو اُمت سے لیتے ہیں مگر ان کے مطالب ومفاہیم اپنے جی سے گھڑتے ہیں اس طرح وہ ضلوا فأضلوا کے مصداق ’خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے‘ ہیں ۔
زیر بحث موضوع کے حوالے سے بھی اُنہوں نے اپنی مذکورہ عبارات کے ذریعے دینی اصطلاحات کے بارے میں دوسروں کوکئی مغالطے اورفریب دینے کی سعی فرمائی ہے۔ اُنہوں نے سنت، حدیث، اجماع اورتواتر جیسی دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدل کر خلط ِمبحث پیدا کردیا ہے ۔سنت کی اصطلاح ہی کولیجئے ۔ اہل علم جانتے ہیں کہ سنت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، تقریرات (خاموشی/ تائیدات) اورصفات ہیں :
أما السنۃ: فہي أقوال النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأفعالہ وتقریراتہ وصفاتہ
(اصول الفقہ الاسلامی از ڈاکٹر وہبہ ز حیلی: ۱/ ۴۴۹، طبع دمشق)
لیکن غامدی صاحب سنت کی من مانی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصطلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔‘‘ (میزان:ص۱۰، طبع دوم اپریل ۲۰۰۲، لاہور ؛ اُصول ومبادی، ص ۱۰، طبع فروری ۲۰۰۵ء، لاہور)
اسی طرح وہ ’حدیث‘ کی معروف دینی اصطلاح کو محض اخبارِ آحاد میں محدود کرکے ان کو