کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 38
انصاری رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کی تائید کردی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس عور ت کو میراث کا چھٹا حصہ دلادیا۔ مذکورہ حدیث خبر واحد بھی ہے کہ اس کے صرف دو راوی ہیں ، لیکن اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابت ہوتی ہے جس پر خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اسے سنت سمجھ کر اس پر عمل فرمایا ۔اور آج تک اہل علم اس پر متفق ہیں کہ میت کے ترکے میں سے والدہ کی عدم موجودگی میں دادی کو چھٹا حصہ دیا جائے گا اور یہ سنت ِثابتہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سنت کا ثبوت خبر واحد( اخبارِ آحاد) سے ہوجاتا ہے اور اس کے لئے اجماع یا تواتر کی کوئی شرط نہیں ہے۔ البتہ قرآن کا ثبوت خبر واحد (اخبارِ آحاد) سے نہیں ہوتا، اس کے لئے علمائے اُمت کے ہاں ’تواتر‘ ضروری ہے۔ 3. سنت کے بارے میں ذہنی قلابازیاں اور فکری تضاد بیانیاں سنت کے ثبوت کے حوالے سے غامدی صاحب کی مذکورہ چاروں تحریروں میں ان کی ذہنی قلابازیاں اور فکر ی تضاد بیانیاں ملاحظہ ہوں کہ ۱۔ سنت کاثبوت صحابہ کرام کے اِجماع سے ہوتاہے۔ پھر دوسرے لمحے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ۲۔ سنت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے اوران کے عملی تواتر سے ثابت ہوتی ہے۔ پھر تیسرے لمحے یہ فرمانے لگتے ہیں کہ ۳۔ سنت اُمت کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے۔ اور چوتھے لمحے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ۴۔ سنت اُمت کے اجماع سے اخذ کی جاتی ہے۔ اب ان چاروں میں سے ان کے کسی موقف کو صحیح سمجھاجائے ؟ جبکہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے جسے وہ ایک چیز قرار دے رہے ہیں ۔اگر سنت کے ثبوت کے لئے تواتر کی شرط عائد کر دی جائے تو پھر اُمت کو نوے فیصد دین اسلام کے احکام وتعلیمات سے محروم ہونا پڑتا ہے، کیونکہ وہ صرف اور صرف خبر واحد( اخبارِ آحاد) سے ثابت ہیں ۔ اب نوے فیصد دین