کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 37
۱۰۔ مفتوح پارسیوں (مجوسیوں )سے جزیہ لینا
۱۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدقریش کی حکمرانی کا حق ہونا
۱۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جس جگہ وفات ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہیں مدفون ہونا۔
۱۳۔مردوں کے لئے ریشم اورسونے کا استعمال ممنوع ہونا
۱۴۔ مدینہ منورہ کا حرم ہونا
۱۵۔قرآنِ مجید کی تلاوت کے وقت مقاماتِ سجود پرسجدہ کرنا
اس طرح کے بے شمار احکام اورسنن ہیں جو خبرواحد سے ثابت ہوتے ہیں ۔
2. کیا قرآن اورسنت کے ثبوت میں کوئی فرق نہیں ؟
غامدی صاحب کا دعوٰی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے قرآن اور سنت میں کوئی فرق نہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ دونوں کے ثبوت میں فرق ہے اور اس کے دلائل یہ ہیں :
۱۔ قرآن کریم اُمت کے تواتر سے ثابت ہے جب کہ سنت کے لئے صحیح حدیث کاہونا ہی کافی ہے اور صحیح حدیث ایک یادو ثقہ اورعادل راویوں سے بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر:
موطأ امام مالک میں ہے کہ ایک شخص کی وفات کے بعد اس کی دادی (نانی) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنی میراث طلب کرنے کے لئے آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مالک في کتاب اﷲ شيئ، وما علمت لک في سنۃ رسول اﷲ شیئًا، فارجعي حتّٰی أسأل النّاس‘‘ (موطا امام مالک : کتاب الفرائض، باب میراث الجدۃ)
’’تیرے لئے اللہ کی کتاب میں کوئی حق موجود نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی تیرا کوئی حق موجود نہیں ہے، لہٰذا تم ابھی واپس چلی جاؤ تاکہ میں دوسرے لوگوں سے دریافت کرلوں ۔‘‘
اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت فرمایا تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ان کی موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی دادی کو چھٹا حصہ دلایا تھا۔اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کیا اس وقت تمہارے ساتھ کوئی اوربھی تھا۔ اس کے بعد جب حضرت محمد بن مسلمہ