کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 30
قلت و کثرت اور سنت کے اظہار و اخفا کے لحاظ سے مختلف اَحوال کی بنا پر اس کا حکم مختلف ہے۔ اسی لئے کبھی تألیف ِقلب مشروع ہے اور کبھی ہجران و براء ۃ مشروع ہے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نئے مسلمان ہونے والوں اور جن کے بارے میں فتنہ کااندیشہ ہوتا تھا، ان سے تالیف و تعلق کا مظاہرہ فرماتے اورکبھی بعض ایمانداروں کی غلطی پر ان سے قطع تعلقی کا اظہار فرماتے، جیسا کہ تبوک سے پیچھے رہنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کیاتھا۔کیونکہ مقصد تو صحیح اُسلوب میں مخلوق کواطاعت ِ الٰہی کی دعوت ہے۔ اس لیے جہاں رغبت اصلاح کاذریعہ ہے وہاں رغبت کا رویہ اور جہاں ڈرانا اور دھمکانا بہتر ہے، وہاں ڈرانا اور ہجر ہی بہتر ہے۔‘‘ (منہاج السنہ: ۱/۶۳،۶۵) یہی بات اُنہوں نے ایک اور مقام پر فرمائی ہے۔چنانچہ ان کے فتاویٰ میں ہے: ’’یہ ہجر و ترک ہاجرین کی قوت و ضعف اور قلت و کثرت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ کیونکہ مقصد تو مہجورین کی تادیب ہے اور عوام الناس کو اس سے بچانا ہے۔ لہٰذا مصلحت اسی میں ہے کہ اگر ہجر و ترک شرو فساد کے ضعف کاباعث ہے تو وہاں ہجر مشروع ہے، لیکن ہاجر کمزور ہے اور ہجر و ترک شر کے اضافے کا باعث ہے تو مصلحت یہی ہے کہ وہاں ہجر مشروع نہیں ۔ بلکہ بعض لوگوں کیلئے تألیف ہی ہجر سے زیادہ سودمند ثابت ہوتی ہے اور بعض کیلئے ہجر تألیف سے زیادہ نفع بخش ہوتا ہے۔یہ اسی طرح ہے جیسے کبھی دشمن سے قتال بہتر ہے اور کبھی جزیہ لینا بہتر ہوتا ہے۔ یہ سب مختلف احوال اور مصالح کے اعتبار سے ہے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ: ۲۸/۲۰۷) اس لئے اہل بدعت ہوں یا اہل فسق ان سے ولاء و براء کا معاملہ انہی دینی مصالح کی اعتبار سے ہونا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ انکارِ منکر میں کوئی اور منکر یا فتنہ و فساد کھڑا ہوجائے۔ ہمارا یہ مقصد قطعاً نہیں کہ ولاء و براء کے اس اُصولی اوردینی پہلو میں سرد مہری کامظاہرہ کیا جائے بلکہ عامۃ الناس جو اس کی نزاکت سے بے خبر ہیں ، اُنہیں بہرنوع اس سے خبردار کرنا چاہئے کہ وہ مبتدع کی مجلس کی زینت نہ بنیں اور ’’من کثر سواد قوم فھو منھم‘‘ کا مصداق نہ بنیں ۔امام سفیان ثوری نے اس بارے میں بڑی معنی خیز بات فرمائی ہے جو عوام کے لئے نہیں ، خواص کے لئے بھی ہے: ’’من جالس صاحب بدعۃ لم یسلم من إحدٰی ثلاث: إما ان یکون فتنۃ