کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 3
سے براہِ راست تقریبات دکھانے میں مصروف تھے۔ میں نے الجزیرہ چینل بھی اس یکسانیت کو کم کرنے کے لئے لگایا تھا۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن اس انسانیت کی ہولناک تباہی کے بارے میں مسلسل خبریں اور مناظر دکھا رہا تھا۔ مگر پاکستانی قوم سوئی ہوئی تھی، اس کا میڈیا عالم اسلام کی اتنی بڑی خبر کے بارے میں مجرمانہ خاموشی کاشکار تھا۔ نجانے ’بریکنگ نیوز‘ کا مقابلہ اس معاملے میں کیوں سامنے نہ آیا…؟ راقم الحروف ٹیلی ویژن کے سامنے مسلسل بیٹھا رہا۔ تقریباً دس بجے رات کو ہمارا میڈیا بھی جاگا اور اسرائیلی بمباری کے بارے میں خبریں نشر کرنا شروع کیں ۔ میرے علم اور مشاہدے کے مطابق سب سے پہلے ’وقت‘ ٹی وی نے یہ خبر دی۔ ایکسپریس ٹی وی جس کا ماٹو ’ہر خبر پر نظر ‘ ہے، نے رات کے ۳۰:۱۰ بجے اس عظیم سانحے کے متعلق ناظرین کو باخبر کرنا مناسب سمجھا۔ جیو ٹی وی اور اے آر وائی چینل نے بھی تقریباً اسی وقت اس المناک غارت گری پرتوجہ دینا شروع کی۔ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ان تمام چینلز پراس دن کی اس سب سے بڑی خبر کو محض سرسری انداز میں بیان کیاگیا۔پاکستان کے سرکاری ٹی وی کا کردار بھی افسوسناک کہا جاسکتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ۲۸ اور ۲۹ دسمبر کے نیوزبلیٹن میں بھی ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے اس المیہ کو خاص کوریج نہ دی۔ ہمارے اخبارات کا رویہ بھی قابل گرفت ہے۔یہ بات درست ہے کہ تقریباً تمام اخبارات نے اس پراداریے تحریر کئے مگر کسی ایک انگریزی یا اُردو اخبار نے بھی اس دل دہلا دینے والے واقعے کو اپنی شہ سرخی (ہیڈلائن)کا مستحق نہ گردانا۔ ۲۹، ۳۰اور۳۱ دسمبر کے اخبارات اُٹھا لیجئے،ایک آدھ اخبار کے علاوہ کسی بھی اخبار نے اس کا فالو اَپ صفحۂ اوّل پر نہ دیا۔ اکثر نے دو یا تین کالمی مختصر سی خبر بناکر آخری صفحہ پر شائع کی۔ ایک دو اخبارات نے تو یہ زحمت بھی گوارا نہ کی۔ ایک انگریزی اخبار ’ڈیلی ٹائمز‘ نے اپنے اداریے میں حتی الامکان کوشش کی کہ اسرائیل اور حماس کے جرم کو برابر کی بات بنا کر پیش کرے۔ سیکولرازم کی پالیسی اپنی جگہ مگر اس دل آزار حرکت کو کسی بھی طرح معقول اور انصاف پسند تبصرہ نہیں کہا جاسکتا۔میں ان خیالات کا اظہار ایک درجن اخبارات کی ورق گردانی کے بعد کررہاہوں ۔ ان اخبارات میں ’جنگ‘، ’نوائے وقت‘، ’پاکستان‘، ’خبریں ‘، ’آج کل‘، ’وقت‘، ’ڈان‘، ’دی نیشن‘، ’ڈیلی ٹائمز‘ اور ’دی نیوز‘