کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 29
فسق و فجور میں مبتلا ہوں ۔ علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں : ’’الھجران و ترک الکلام والسلام حسبما تقدم عن جملۃ من السلف في ھجرانھم لمن تلبس ببدعۃ‘‘ (الاعتصام:ج۱/ ص۱۷۵) یہاں یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ بدعتی ہو یا فاسق، ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی جو بعض اَسلاف سے ممانعت منقول ہے یا ان سے ترکِ سلام یا ترکِ عیادت کا ذکر آیاہے تو یہ سب ان کے لئے زجر و توبیخ کے لئے ہے۔ یوں نہیں کہ ان کے پیچھے نماز ناجائز ہے یا سلام کہنا اور عیادت کرنا جائز نہیں ۔ جب بدعتی مسلمان ہے اور اسلام سے خارج نہیں تو وہ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مستحق ہے: (( حق المسلم علی المسلم خمس: ردّ السلام وعیادۃ المریض واتباع الجنائز وإجابۃ الدعوۃ وتشمیت العاطس)) (صحیح بخاری:۱۲۴۰) ’’ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں ،سلام کا جواب دینا،مریض کی عیادت کرنا،دعوت قبول کرنا،جنازے میں جانا اور چھینک کا جواب دینا۔‘‘ اور علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ صراحت کی ہے کہ بدعتی کی ترک ِعیادت زجر و توبیخ کے لئے ہی ہے، ان کے الفاظ ہیں : ’’الثالث عشر ترک عیادۃ مرضاھم وھو من باب الزجر والعقوبۃ‘‘ [الاعتصام:ج۱/ ص۱۷۷] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے ’منہاج السنہ‘ میں بڑی طویل اور نفیس بحث کی ہے، فرماتے ہیں : ’’اہل بدعت اوراہل فسق کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے۔بعض مطلقاً اس کی اجازت دیتے ہیں اور بعض بالکل منع کرتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں تحقیقی بات یہ ہے کہ ان کے پیچھے نماز کی ممانعت اس لئے نہیں کہ خود ان کی نماز باطل ہے بلکہ اس لئے کہ وہ بدعت کو ہوادیتے ہیں ،اس لئے وہ اس لائق ہیں کہ ان سے تعلق نہ رکھاجائے اور اُنہیں مسلمانوں کا امام نہ بنایا جائے۔ ان کی عیادت نہ کرنا اور جنازے کے ساتھ نہ جانا بھی اسی انکارِ منکر کے باب سے ہے۔ اور جب یہ عقوباتِ شرعیہ میں سے ہے تو معلوم ہوا کہ بدعت کی