کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 28
’’ ہمارے مذہب میں یہی ہے کہ ہم جمعہ،عیدین اور سب نماز میں ہر نیک وفاجر کے پیچھے پڑھ لیں ، کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ حجاج کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔‘‘
عموماً یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ بدعتی کی تو اپنی نماز قبول نہیں ، اس کے پیچھے نماز کیونکر جائز ہوسکتی ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قبولیت کے کئی مدارج ہیں ، جن میں سب سے کم تر یہ کہ اس کی ادائیگی سے فرض ساقط ہوجاتاہے اور وہ فی نفسہٖ صحیح ہوتا ہے۔
علامہ ابن ابی العز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ
’’والفاسق والمبتدع صلاتہ في نفسھا صحیحۃ فإذا صلی المأموم خلفہ لم تبطل صلاتہ‘‘ (شرح عقیدہ طحاویہ:ص۳۷۵)
’’ فاسق اور بدعتی کی نماز فی نفسہا صحیح ہے اور اگر کوئی شخص ان کی اقتداء میں نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کی نماز بھی باطل نہیں ہو گی۔‘‘
یاد رہے کہ بدعتی بدعت مکفرہ کا مرتکب ہو تو اس کا کوئی عمل قطعاً مقبول نہیں ہے۔ البتہ بدعت ِمکفرہ نہ ہو تو بدعتی کا عمل بدعت مردود ہے جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے کہ (( مَن أحدث في أمرنا ما لیس منہ فھو ردّ)) [بخاری مع الفتح: ۵/ ۳۰۱، ۲۶۹۷] رہ گئے بدعتی کے دوسرے اَعمال تو اس کی قبولیت کے جو شرائط ہیں کہ وہ سنت کے مطابق ہوں اور اخلاص پر مبنی ہوں تو وہ اعمال مقبول ہیں ۔
خلاصۂ کلام یہ کہ کوئی بدعتی ہو یا فسق کامرتکب ہو تو اس سے براء ت بقدرِ فسق و بدعت ہونی چاہیے۔ان سے سلام و کلام، بیمار پرسی، میل ملاقات کاعلیٰ الاطلاق ترک سلف کے موقف و منہج کے موافق نہیں ۔بدعت اگر حد کفر تک نہیں ہے تو وہ بدعتی مسلمان ہے اور سلام مسلمان کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ خراسان میں ہمارے مرجئ عزیزو اقارب ہیں ، ہم انہیں خط لکھتے تو اُنہیں سلام لکھیں ؟انہوں نے فرمایا: ’’سبحان اﷲ لم لا تقرئھم‘‘(مسائل احمد بروایۃ ابی داؤد:ص۲۷۶) البتہ اگر زجراً و توبیخاً اور تادیباً انہیں سلام نہ کہا جائے تو اس کی بھی ائمہ کرام نے اجازت دی ہے۔بالخصوص جب کہ وہ بدعت کے مرتکب ہوں یافاسق مسلمان