کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 27
’’وذھبت طائفۃ الصحابۃ کلھم دون خلاف من أحد منھم وجمیع فقھاء التابعین کلھم دون خلاف من أحد منھم وأکثر من بعدھم وجمہور أصحاب الحدیث وھو قول أحمد والشافعي وأبي حنیفۃ وداود وغیرھم إلی جواز الصلاۃ خلف الفاسق الجمعۃ وغیرھا، وبھذا نقول وخلاف ھذا القول بدعۃ محدثۃ فما تأخر قط أحد من الصحابۃ الذین أدرکو المختار بن أبی عبید والحجاج وعبید اﷲ بن زیاد وجیش بن دلجۃ وغیرھم عن الصلاۃ خلفھم وھؤلاء أفسق الفساق وأما المختار فکان متھما في دینہ مظنونا بہ الکفر‘‘ (الفصل فی الملل والأھواء والنحل :ج۴/ ص۱۷۶)
اور تقریباً یہی بات اُنہوں نے المحلی:۳/ ۲۱۳،۲۱۴ میں بھی کہی ہے۔
ہم یہاں مزید تفصیل میں جانانہیں چاہتے، تاہم یہ بات بہرحال ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ بدعتی کے پیچھے نماز کاجائز ہونا اور بات ہے مگر اُنہیں امام بنانا امر دیگر ہے۔امربالمعروف ونہی عن المنکر کا تقاضا ہے کہ اس کی بدعت پرانکار کیاجائے اور اس کی تعظیم و تکریم سے مقدور بھر اجتناب کیا جائے۔ لیکن اگر انکارِ منکر میں فتنہ کا خوف ہو یا دوسری جماعت کی کوئی سبیل نہ ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے۔ اسی تناظر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’ولھذا کان الصحابۃ یصلون خلف الحجاج والمختار بن أبي عبید الثقفي وغیرھما الجمعۃ والجماعۃ فإن تفویت الجمعۃ والجماعۃ أعظم فسادًا من الإقتداء فیھما بإمام فاجر‘‘ (مجموع الفتاویٰ: ج۲۳/ ص۳۴۳)
’’یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام حجاج اور مختار بن ابو عبید ثقفی کے پیچھے نماز اور جمعہ پڑھ لیا کرتے تھے کیونکہ نماز اور جمعہ کافوت ہو جانا فاجر امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے زیادہ فساد کا کام ہے۔‘‘
امام ابوالحسن اشعری فرماتے ہیں :
’’وعن دیننا أن نصلی الجمعۃ والأعیاد وسائر الصلوات والجماعات خلف کل بر وفاجر لما روی عن ابن عمر أنہ کان یصلی خلف الحجاج‘‘ (الابانہ: ص۶۱)