کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 26
بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے بڑی جامع بات فرمائی ہے:
’’والتعزیر لمن ظھر منہ ترک الواجبات وفعل المحرمات کتارک الصلاۃ والتظاھر بالمظالم والفواحش، والداعي إلی البدع المخالفۃ للکتاب والسنۃ وإجماع سلف الأمۃ التي ظھر أنھا بدع وھذا حقیقۃ قول السلف والأئمۃ أن الدعاۃ إلی البدع لاتقبل شھادتھم ولا یصلی خلفھم ولایؤخذ عنھم العلم ولا یناکحون فھذہ عقوبۃ لھم حتی ینتھوا ولھذا فرقوا بین الداعیۃ وغیر الداعیۃ، لأن الداعیۃ أظھر المنکرات فاستحق العقوبۃ، بخلاف الکاتم، فانہ لیس شرًا من المنافقین الذین کان النبي ! یقبل علانیتھم ویکل سرائرھم إلی اﷲ‘‘ [مجموع الفتاویٰ: ج۲۸/ ص۲۰۵]
یہاں دو باتیں مزید غور طلب ہیں : ایک یہ کہ اگر مطلقاً بدعتی مردود ہوتا اور اس سے موالات کلیۃ ناجائز ہوتے تو داعی اور غیر داعی کے مابین یہ فرق بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ شیخ الاسلام نے جو فرمایا ہے کہ داعی الی البدعت کے پیچھے نمازنہ پڑھی جائے، اس میں بھی قدرے تفصیل ہے۔ مامون، معتصم وغیرہ اُمراء جوصرف جہمی عقائد ہی نہیں رکھتے تھے بلکہجہمیت کے داعی بھی تھے اور اسی سبب سے اُنہوں نے امام احمد اور دیگر بہت سے محدثین کواپنے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنا رکھا تھا، انہی کے بارے میں خود شیخ الاسلام نے فرمایا ہے:
’’یہ جہمی حکام جو اپنی بدعت کے داعی اورعلمبردار تھے اور اپنے مخالفوں کو قید و بند کی سزائیں دیتے اور اسے تب تک نہ چھوڑتے جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیتا کہ قرآن مخلوق ہے۔مگر اس کے باوجود امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ان پر ترس کھاتے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ایسے ہیں جن کے لئے یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اس کے لائے ہوئے دین سے انکاری ہیں بلکہ اُنہوں نے تاویل کی اوراس میں خطا کے مرتکب ہوئے اور جنہوں نے اُنہیں یہ کہا کہ ان کے مقلد ہوگئے۔ ایسے حکام اُمرا یاان کے مقرر کردہ اماموں کے پیچھے نماز بالخصوص نمازِ جمعہ، عیدین اور حج کے دوران کی نمازیں درست ہیں ۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۲۳ /۳۴۹)
حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اس بارے فرماتے ہیں :