کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 25
نے ’شرح اُصول اعتقاد اہل السنہ‘ میں ، امام ابن بطہ نے ’الابانہ‘ میں بھی اس حوالے متعدد اقوال درج کئے ہیں ، جن کی تفصیل محولہ بالا مقامات پر دیکھی جاسکتی ہے۔اگر ایک ایک قول کو ذکر کیا جائے تو بحث طویل ہوجائے گی۔ صحابہ کرام سے تو صرف ایک حدیث کی مخالفت اور معارضت پر انکار اور ترکِ موالات معروف ہے۔ علامہ ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ’المعارف‘ ص۵۵۰ میں اس کے متعلق متعدد واقعات ذکر کئے ہیں ۔ علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ یہی بات علامہ ابن عبدالبر، علامہ نووی، علامہ شاطبی، اور حافظ ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے کہی ہے۔ البتہ یہاں یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہئے کہ تمام بدعات یکساں اور ان کے مرتکبین ایک جیسے نہیں ۔ جو بدعات حد ِکفر تک پہنچتی ہیں ، ان سے بہرنوع براء ت کا اظہار ایمان کا تقاضا ہے۔البتہ جو بدعات اس سے کم تر ہیں ، ان سے معاملہ بقدرِ بدعت ہونا چاہئے۔جیساکہ پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے گزرا ہے کہ ایک آدمی میں جب خیر و شر، طاعت ومعصیت اور سنت و بدعت دونوں جمع ہوں تو اس سے بقدرِ خیر موالات اور بقدرِشر ہی معادات اختیار کرنی چاہئے۔ (مجموع فتاویٰ :ج۲۸/ ص۲۰۹،۲۱۰) علامہ ابن ابی العز رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے: ’’الحب والبغض بحسب ما فیھم من خصال الخیر والشر فإن العبد یجتمع فیہ سبب الموالاۃ و سبب العداوۃ والحب والبغض فیکون محبوبًا من وجہ ومبغوضًا من وجہ والحکم للغالب‘‘ (شرح الصغیر الطحاویہ ص۴۳۴) یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام بدعتی اور داعی الی البدعہ کی روایت میں بھی فرق کرتے ہیں ۔ بدعتی کی روایت تو قبول کرتے ہیں مگر داعی الی البدعت کی روایت کو قبول نہیں کرتے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’نخبۃ الفکر‘ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’والثاني یقبل من لم یکن داعیۃ علی الأصح إلا أن روٰی ما یقوي بدعتہ فیردّ علی المختار‘‘ (شرح نخبۃ الفکر: ص۱۳۷)