کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 24
’’جس شخض نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کا انکار کر دیا تحقیق اس نے کفر کیا اور جس نے اقرار کیا اور اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا وہ ظالم فاسق ہے۔‘‘
امام طاؤس، عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ
’’لیس کفر ینقل عن الملۃ، لیس کمن یکفر باﷲ والملائکۃ وکتبہ ورسلہ‘‘ (فتح القدیر:۵۸)
’’ یہ ایسا کفر نہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دے اور نہ ہی اس شخص کے کفر کی طرح ہے جس نے اللہ،اس کے فرشتوں ،کتابوں اور رسولوں کاانکار کیا۔‘‘
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے ہے: ’’لیس بالکفر الذي تذہبون إلیہ‘‘
’’ یہ وہ کفر نہیں ہے جس کی طرف تم چل نکلے ہو۔‘‘ (فتح القدیر:۵۸)
اسی طرح کسی بدعت اور اس کے مرتکب پرکفر کا اطلاق بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔ اس کی کچھ شرائط اور ضوابط ہیں جو اپنی جگہ ایک مستقل عنوان ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ان مبتدعین کے بارے میں بلکہ سنت کااستخفاف کرنے والوں کے بارے میں سلف کا موقف کیا ہے اور ان پر موالات کا حکم کیا ہے؟اس ضمن میں علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
قد أخبر النبي ! عن افتراق ھذہ الأمۃ، وظھور الأھواء والبدع فیھم وحکم بالنجاۃ لمن اتبع سنتہ، وسنۃ أصحابہ رضي اﷲ عنھم، فعلی المرء المسلم إذا رأیٰ رجلاً یتعاطی شیئًا من الأھواء والبدع معتقدًا، أو یتھاون بشيء من السنن، أن یھجرہ ویتبرأ منہ ویترکہ حیًّا ومیتًا، فلا یسلم علیہ إذا لقیہ، ولایجیبہ إذا ابتدأ، إلی أن یترک بدعتہ ویراجع الحق‘‘ (شرح السنہ:۱/۲۲۴)
بلکہ چند سطور بعد فرماتے ہیں :
’’قد مضت الصحابۃ والتابعون وأتباعھم وعلماء السنۃ علی ھذا مجمعین متفقین علی معاداۃ أھل البدعۃ ومھاجرتھم‘‘ [ایضاً:۱/۲۲۷]
اس کے بعد اُنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ اورائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کے اس حوالے سے متعدد اَقوال ذکر کئے ہیں ۔ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی’ تلبیس ابلیس‘ (ص ۱۸،۲۱) میں ، امام لالکائی رحمۃ اللہ علیہ