کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 23
’’ یا رسول اللہ! اُنہوں نے آپ کو جھٹلایا،مکہ سے نکال دیا، آپ سے لڑائی کی، آپ انکی گردنیں اڑا دیں ۔‘‘ معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا بھائی عبید بن عمیر قیدی ہوا تو انہوں نے کہا:اسے ذرا مضبوطی سے باندھو اس کی ماں بہت مالدار ہے۔(قرطبی:۸/۴۸) قرآن کریم نے صحابہ کرام کے بارے میں ﴿اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ﴾ فرما کر ان کے اس ولاء وبراء کے عملی کردار کی تحسین فرمائی۔ جہاد بھی کفار سے براء ت ہی کااظہار ہے کہ جواللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے، ہمارااس کے خلاف علیٰ اعلانِ جنگ ہے : قال معاویۃ: واﷲ لئن لم تنتہ وترجع إلی بلادک یا لعین لأصطلحن أنا وابن عمي علیک ولأخرجنک من جمیع بلادک ’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے (رومی بادشاہ کو جواب دیتے ہوئے) کہا: اے لعین! اگر تو باز نہ آیا اور اپنے ملک واپس نہ لوٹ گیا تو میں اور میرے چچاکا بیٹا (علی رضی اللہ عنہ )تیرے خلاف صلح کر لیں گے اور تجھے تیری ساری حکومت سے نکال دیں گے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ:۸/۵۱۴) یہاں یہ بات پیش نگاہ رہے کہ ایک تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں اور وہ غیر مسلم اور کافر ہیں ۔ ان کے ساتھ موالات اور مواسات کی صراحتاً ممانعت ہے اور دوسرے وہ ہیں جنہیں ان کی کوتاہیوں کی بنا پر کافر قرار دیاجاتا ہے۔ یا ان کی بدعات وخرافات کی بنا پر اُنہیں کافر یا بدعتی کہاجاتا ہے اور پھر ان سے اسی اصول کے مطابق معاملہ کیاجاتاہے۔ اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج کل فتنۂ تکفیر کی جو لہر چل نکلی ہے اور اس کے جو برگ و بار ہیں ، وہ انتہائی خطرناک ہیں ۔مثلاً ﴿مَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أنْزَلَ اﷲُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾کی وجہ سے مسلم حکمرانوں کے بارے میں فتویٰ کفراور اسی بنا پر ان کے خلاف خروج اور فساد کااِقدام۔حالانکہ اس آیت کے بارے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : من جَحَد ما أنزل اﷲ فقد کفر ومن أقرَّ بہٖ ولم یحکم بہ فھو ظالم فاسق‘‘ (تفسیرابن کثیر:۲/۸۵، )