کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 22
مگر ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعابھی باپ کی صرف زندگی میں کی کہ اسے ہدایت مل جائے: ﴿وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ إلَّا عَنْ مَوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَا اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ أنَّہُ عَدُوٌّ ﷲِ تَبَرَّاَ مِنْہُ إِنَّ اِبْرَاہِیْمَ لَحَلِیْمٌ أَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ ﴾ (التوبہ:۱۱۴) ’’اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کے سبب تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے،لیکن جب ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے بے شک ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل مزاج تھے۔‘‘ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تمام ایمانداروں کو مشرکین کے لئے بخشش و مغفرت کی دعا سے روک دیا۔فرمایا: ﴿وَمَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْا أوْلِی قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحَابُ الْجَحِیْمِ﴾ (التوبہ:۱۱۳) ’’نبی اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں ، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں ۔‘‘ کافر اور مسلم کے بارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میں فرمایا: (( لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم)) (سنن ابوداؤد:۲۹۰۹ اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو صحیح کہا ہے) ’’مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔‘‘ علی بن حسین کہتے ہیں کہ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ اور جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے اسی لئے عم رسول ابوطالب کی وراثت وصول کرنے سے انکار کردیا اور ابوطالب کے وارث عقیل اور طالب ہی بنے تھے۔ ‘‘ (موطأ:۱۴۷۰) کفارومشرکین سے براء ت کی بنا پر ہی ابو طالب کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا گیا۔ بدر کے قیدیوں میں جن میں حضرت ابوبکرصدیق کا بیٹا عبدالرحمن بھی تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! کذّبوک وأخرجوک، قاتلوک فاضرب أعناقھم (مختصر ابن کثیر،ص۴۲۹)