کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 21
’’اے اہل ایمان! اگر تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھواور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں۔‘‘
٭ ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِنَ الَّذِیْنَ أوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَائَ وَاتَّقُوْا اﷲَ إنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ﴾ (المائدۃ: ۵۷)
اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو۔‘‘
اس موضوع کی اور بھی آیاتِ مبارکہ ہیں مگر یہاں استیعاب مقصود نہیں ۔ اس اہم حکم نافرمانی کے نتیجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ
﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ إلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِیْ الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ﴾ (الانفال:۷۳)
’’اور جو لوگ کافر ہیں (وہ بھی) ایک دوسرے کے رفیق ہیں تو (مومنو!) اگر تم یہ(کام) نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ برپا ہو جائے گا اور بڑا فساد برپا ہو گا۔‘‘
اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو’اُسوۂ حسنہ‘ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
٭ ﴿قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ إِنَّا بُرَئٰ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَائُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤمِنُوْا بِاﷲِ وَحْدَہُ اِلَّا قَوْلَ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ شَيْئٍ﴾ (المُمتحنۃ:۴)
’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں ) سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو بے تعلق ہیں ۔تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہو سکتے)اور جب تک خدائے واحد پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلی عداوت اور دشمنی رہے گی۔ہاں ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لیے مغفرت مانگوں گا اور میں خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔‘‘