کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 20
’’ ایمان کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے لیے دوستی ہو،اللہ کے لیے دشمنی ہو، اللہ کے لیے محبت ہو اور اللہ کے لیے بغض ہو۔‘‘ اللہ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ کے انبیاے کرام اوران کے اطاعت گزاروں سے محبت کی جائے اسی طرح اللہ اور اس کے انبیاے کرام کے دشمنوں سے دشمنی اورعداوت رکھی جائے اور ان کے نافرمانوں سے علیٰ حسب الدرجات بغض رکھاجائے۔ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: ’’علی المؤمن أن یعادي في اﷲ ویوالي في اﷲ فإن کان ھناک مؤمن فعلیہ أن یوالیہ، وإن ظلمہ، فإن الظلم لایقطع الموالاۃ الإیمانیۃ وإذا اجتمع في الرجل الواحد خیر وشر وفجور، وطاعۃ ومعصیۃ، وسنۃ وبدعۃ استحق من الموالاۃ والثواب بقدر ما فیہ من الخیر، واستحق من المعاداۃ والعقاب بحسب ما فیہ من الشر‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۲/۲۰۸، ۲۰۹) اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر مؤمنوں اور کافروں کے مابین موالات کی نفی کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ٭ ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَائَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَإنَّہُ مِنْھُمْ﴾ (المائدۃ:۵۱) ’’اے ایمان والو! یہود اور نصاری کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہو گا۔‘‘ ٭ ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤمِنِیْنَ﴾ ’’ اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ۔‘‘ (النساء: ۱۴۴) ٭ ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَائَ﴾ [الممتحنۃ:۱] ’’مؤمنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لیے نکلے ہو تومیرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔‘‘ ٭ ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا اٰبَائَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَائَ اِنِ اسْتَحَبُّوْا الْکُفْرَ عَلَی الِایْمَانِ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُؤلٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ﴾ (التوبہ:۲۳)