کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 19
ایمان وعقائد مولانا ارشاد الحق اثری
اسلامی عقیدہ کا اہم پہلو الوَلاء والبراء
وَلاء کے معنی بیان کرتے ہوئے امام راغب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے کہ ’ولاء‘ کے اصل معنی
’’دو یا دو سے زیادہ چیزوں کااس طرح یکے بعد دیگرے آنا کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ آئے جو ان میں سے نہ ہو۔ پھر یہ لفظ استعارہ کے طور پر قرب کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے، خواہ وہ قرب بلحاظ مکان ہو یا بلحاظِ نسب، یا بلحاظِ دین اور دوستی و نصرت کے ہو، یا بلحاظِ اعتقاد کے۔ ‘‘ (المفردات،ص۵۵۵)
اسی سے لفظ ’ولی‘ ہے جس کی ضد ’عدوّ‘ (دشمن) ہے اور اسی سے ’الموالات‘ اور ’المواسات‘ ہے جس کے معنی میں تقرب، دوستی، تعاون، مدد، صلح، اور غم خواری کا مفہوم پایا جاتاہے۔
وَلاء کے مقابلے میں بَراء ہے جس کے اصل معنی:کسی ناپسندیدہ اور مکروہ امر سے نجات حاصل کرنا کے ہیں ۔ اسی لئے کہا جاتاہے:براء تُ من المرض’’میں تندرست ہوگیا، میں نے بیماری سے نجات پائی۔‘‘ اوریوں بھی کہا جاتا ہے: براء تُ من فلان یعنی ’’میں فلاں سے بیزارہوں ۔‘‘ گویا’ولاء‘ میں موالات ہے اور ’براء‘ میں انقطاع اور بیزاری مراد ہے اور یہ دونوں حقیقۃً ’محبت‘ اور’بُغض‘کے تابع ہیں اور یہی دونوں ایمان کی بنیادی صفات ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
(( من أحبّ ﷲ وأبغض ﷲ وأعطٰی ﷲ ومنع ﷲ فقد استکمل الإیمان))
’’ جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے دشمنی ،اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے نہ دیا تحقیق اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔‘‘ (السلسلۃ الصحیحۃ:۳۸۰)
حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أوثق عری الإیمان،الموالاۃ في اﷲ والمعاداۃ في اﷲ والحب في اﷲ والبغض في اﷲ)) (الطبراني؛ السلسلۃ الصحیحۃ : ۱۷۲۸)