کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 18
معاملہ طول پکڑے گا،جبکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ آنے والے انتخابات کے دوران اسے ’ فتح‘کا تاثر ہرصورت حاصل ہو، خواہ یہ فتح جنگ کے ذریعے ہو یا امن کے ذریعے، امریکہ اس کے لئے سرگرم ہوگیا تاکہ اس ہدف کو سکیورٹی کونسل کے ذریعے حاصل کیا جائے ۔چنانچہ امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزارائس مختلف ملاقاتوں اورمیٹنگز میں بنیادی کردار ادا کر رہی تھی اور اس نے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو حرکت میں لانا شروع کیا، اور وہ سب سکیورٹی کونسل کی طرف تکنے لگے جبکہ یہ وہی حکمران ہیں جو غزہ میں مسلمانوں کی مدد کے لئے خود کوئی ٹھوس اقدام کرنے سے اس طرح بدکتے ہیں جیسے یہ کوئی سیدھا موت کا راستہ ہو!
مسلم دنیا کے حکمران اس قرارداد کے ضامن ہیں ،اگرچہ یہ قرارداد یہودی ریاست کو وہ کچھ عطا کر رہی ہے جو وہ حملوں کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتی، یعنی اسرائیل کی افواج غزہ میں موجود رہیں گی اور غزہ پر اسلحہ اور قوت حاصل کرنے پرپابندی برقرار رہے گی۔ نیز اس قرارداد میں غذائی امداد کا ذکر اسلحہ اور قوت حاصل کرنے پرعائد اس پابندی کوتبدیل نہیں کرے گا!
اس قرارداد کو وزن دینے کے لئے امریکہ نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ ڈالا تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ گویا امریکہ اس قرارداد کے پس پردہ نہیں ہے۔ اور تاکہ مسلم دنیا کے حکمران یہ تاثر دینے کے قابل ہوسکیں کہ وہ امریکہ کی مدد کے بغیربھی ایک بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ، لیکن درحقیقت مسلم حکمران ایک بار پھر دھوکہ کھا گئے اور کوئی بھی ایسا شخص جو عقل رکھتا ہے اس بات کااِدراک کر سکتا ہے کہ اگر امریکہ اس قرارداد کی پشت پر نہ ہوتا تو وہ اس قرارداد کو منظور ہی نہ ہونے دیتا۔
اللہ ہمیں ایسے قائد دے جو مسلم اُمہ کے مفاد کے محافظ، دشمن کی چالبازیوں کو سمجھنے والے، ملت کا شعور اور دکھ درد رکھنے والے اور دین کی عظمت کے رکھوالے ہوں !!
[المیہ غزہ پر نامور صحافیوں کی تحریروں کا ایک انتخاب]