کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 17
اور سفارتی دانش پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے ان حکمرانوں نے غزہ سے دستبرداری پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے یہودیوں کومنہ مانگا تحفظ بھی فراہم کردیا…!! ۹/جنوری ۲۰۰۹ء کواقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے غزہ پریہودی ریاست کے وحشیانہ حملے کے متعلق قرارداد نمبر۱۸۶۰ منظور کی۔اس قرارداد کے متن میں اسی طرح سیاسی مکاری برتی گئی ہے جس طرح اس سے قبل ۱۹۶۷ء کے اسرائیلی حملے کے بعد منظور کی جانے والی قرارداد نمبر۲۴۲ میں برتی گئی تھی۔ قرارداد ۱۸۶۰کے متن میں فوجی انخلا کا ذکر کرتے ہوئے ’مخصوص سرزمین‘ (The land)کی بجائے ’کوئی بھی سرزمین‘ (A land)کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، تاکہ یہودیوں کے لئے ان علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے کی گنجائش موجود ہو جسے اُنہوں نے غصب کر رکھا ہے۔ اس طرح اس قرار داد میں غزہ سے انخلا کا مطالبہ نہیں کیا گیابلکہ جنگ بندی کی بات کی گئی ہے جو کہ ’انخلا کا باعث‘ ہوگی،لیکن یہ جنگ بندی کس طرح اور کیونکر انخلا کاباعث بنے گی ؟اس سے قبل کئی واضح قراردادیں بھی یہودیوں کی جارحیت کو نہیں روک سکیں تو پھر کس طرح یہ قرارداد یہودیوں کی جارحیت کو روکنے کا باعث ہوگی،جسے جان بوجھ کر مبہم رکھا گیا ہے؟! اَقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی یہ قراردادیں کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں اور یہودی ریاست ان قراردادوں پر عمل در آمد کرنا گوار ا نہیں کرتی اور یہ قراردادیں محض اقوامِ متحدہ کی ردی کی ٹوکری کو بھرنے کا کام کرتی ہیں ۔ تاہم اس تمام ترکے باوجود بھی امریکہ اور اس کے حواریوں نے سیکورٹی کونسل کی جانب سے اس قرارداد کو منظور کرنے کی مخالفت میں بیان دیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ یہودی ریاست کو غزہ پر وحشیانہ حملے کے دوران مسلمانوں کا مزید خون بہانے کی مہلت مل جائے اور صہیونیت اپنے مزید اہداف کوحاصل کر لے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں نے امریکہ کی پیروی میں اس کے ’ مقصد‘ کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے اس پر رضامندی کا اظہار کیا۔ چنانچہ اُنہوں نے اس قرارداد کے متعلق آپس میں اختلاف کیا اور وہ اس قرارداد پر متفق نہ ہوئے تاکہ یہودی ریاست کو مزید مہلت ملے جائے…! جب یہودی ریاست نے دیکھا کہ اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس نے جان لیا کہ وہ اپنے اہداف کو عسکری کاروائی سے حاصل نہیں کرسکتی اور اس نے دیکھا کہ یہ