کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 14
دوپہر غزہ کی طاحد مسجد کے تباہ شدہ مینار دیکھ کر مجھے جنوبی لبنان کے شہر قانا کی وہ مسجد یاد آئی جس کی چھت گر گئی تھی، لیکن اس کے ایک مینار کا نیلا گنبد سلامت تھا۔ غزہ کا ایک تباہ شدہ اسپتال دیکھ کر مجھے ۲۰۰۳ء میں عراق کے شہر تکریت کا وہ اسپتال یاد آ رہا تھا جس کو میری آنکھوں کے سامنے امریکی ٹینکوں نے ملبے کا ڈھیر بنادیا تھا اور اس ڈھیر کی فلم بنانے کے لئے بھی مجھے امریکی فوج کے ایک کرنل سے اجازت لینی پڑی تھی۔
غزہ کے انٹرنیشنل امریکن اسکول کے ملبے میں طلبا و طالبات کی کتابیں اور کاپیاں بکھری دیکھ کر مجھے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اقوامِ متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول کا ملبہ یاد آگیا جو نومبر ۲۰۰۱ء میں امریکی طیاروں کی بمباری کے دوران کئی گھنٹوں تک میری پناہ گاہ تھا۔ اس ملبے میں پناہ کے دوران میں افغان بچوں کی کاپیوں میں موجود ان کا ہوم ورک پڑھ کر وقت گزارتا رہا۔
غزہ کی تباہی دیکھ کر مجھے لبنان، عراق اور افغانستان کی تباہی یاد آرہی ہے۔ غزہ کے اسپتالوں میں پڑے زخمی بچے دیکھ کر مجھے بیروت، بغداد اور کابل کے ہسپتالوں میں پڑے زخمی بچے یاد آ رہے ہیں ۔ ان سب کی ایک ہی کہانی ہے اور ان سب کا ایک ہی جرم ہے، ان کا جرم یہ ہے کہ یہ سب مسلمان ہیں ۔
غزہ میں میرے ٹیکسی ڈرائیور کا نام مروان ہے۔ وہ دو سال اسرائیل کی جیل میں گزار چکا ہے۔ بیروت میں میرے ٹیکسی ڈرائیور کا نام ابو جعفر تھا اور وہ چار سال اسرائیلی قید میں گزار چکا تھا۔ آج شام جب مروان مجھے اپنی قید کی کہانی سنا رہا تھا تو مجھے ایسے لگا کہ میں یہ کہانی پہلے بھی سن چکا ہوں ۔ ایسی ہی کہانی مجھے بیروت میں ابوجعفر نے سنائی تھی۔ مروان کی کہانی سن کر میں ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ شاید یہ ایک ارب مسلمانوں کی قید کی کہانی ہے۔ غزہ میں آکر میں خود کو بھی ایک قیدی محسوس کرتا ہوں ۔ غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔ ۴۱کلو میٹر لمبی اور چھ کلو میٹر چوڑی اس جیل کو ایک طرف سے اسرائیلی ٹینکوں نے اور دو اطراف سے سمندر میں اسرائیل کے بحری جنگی جہازوں نے گھیر رکھا ہے۔
چوتھی طرف مصر کی سرحد ہے جہاں سے فلسطینیوں کی آمد و رفت کافی مشکل ہے۔ غزہ کی فضاؤں میں ہر وقت اسرائیل کے جنگی جہاز پرواز کرتے نظر آتے ہیں ۔ غزہ سے فلسطین کے