کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 13
یاسرعرفات کے ظالمانہ قتل کے بعد حماس کے بانی شیخ احمد یاسین
اور ان کے بعد ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی کی مظلومانہ شہادت،
حماس کی منتخب حکومت کے خاتمے،
پندرہ ہزار فلسطینیوں اور چوالیس اراکین پارلیمان کو قید کی سلاخوں میں ٹھونسنے
اور ۲۷دسمبر۲۰۰۸ء کو فضائی حملے کرنے کے باوجود فلسطینی، فلسطین میں موجود ہیں اور ببانگ ِدہل اعلان کررہے ہیں کہ اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکہ ہمارے جسموں سے ہماری گردنیں جدا کرسکتاہے، ہمارے ہسپتالوں ،سکولوں ، کاروباری مراکز اور بازاروں کو خاک و خون میں نہلا سکتاہے، ایک ایک قصبے اور ایک ایک دیہات کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتاہے۔ عالمی مبصرین اور صحافیوں کے غزہ کی پٹی میں داخلے کو روک سکتا ہے۔ رفح راہداری کو بند رکھ سکتاہے، ماں کی کوکھ اُجاڑ سکتاہے لیکن فلسطینی قوم سے آزاد فلسطینی ریاست کا خواب نہیں چھین سکتا۔
وہ تو پتھر ہیں جو گرجاتے ہیں ٹکڑے ہوکر
حوصلے بھی کبھی مسمار ہوا کرتے ہیں !
[خالد امائرے/ ترجمہ:محمد ایوب منیر: ۱۳/جنوری ۲۰۰۹ء]
دنیا کی سب سے بڑی جیل
ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی سبق ہوتا ہے جو اس سبق کو پالے وہ دانا کہلاتا ہے اور جو سبق نہ پاسکے، اسے بے وقوف کہنا چاہئے۔ دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ساتھ کم از کم ایک سو سال سے ایک ہی کہانی بار بار دہرائی جارہی ہے۔ پچھلے پانچ دنوں سے میں غزہ کے مختلف علاقوں رفح، خان یونس اور بیت ِحنون میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں ، وہ میرے لئے نیا نہیں ہے۔
غزہ کی مسجدیں ، ہسپتال، اسکول، پولیس اسٹیشن، سرکاری دفاتر، صنعتی ادارے، ہوٹل اور کئی مارکیٹیں اسرائیلی بمباری سے تباہ کی جاچکی ہیں ۔ اس تباہی کو دیکھ کر مجھے ۲۰۰۶ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران بیروت سے لے کر قانا تک ہونے والی تباہی یاد آرہی ہے۔ آج