کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 128
صفحات پر مشتمل ہے۔[1] دوسرا جز جو محمد رفیق کی کتاب الأمین پر تبصرہ ہے۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں : تین جلدوں اور ۱۸۲۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب کے مندرجات اور فہرست کا احاطہ کرنا مقصود نہیں ۔ مطمع نظر یہ ہے کہ سیرت پر لکھی لا تعداد کتابوں ، بالخصوص اُردو ادب کے حوالے سے اس نئے اور گراں قدر اضافہ کے مقام کا تعین کیا جائے اور دیکھا جائے کہ اس کا تعلق سیرت نگاری کی کس قبیل سے ہے۔ اور اس لحاظ سے اس کی افادیت کیا ہے ۔[2] ۱۳ صفحات کے اس مضمون/مقالہ میں ڈاکٹر صاحب نے جہاں اس کتاب کے محاسن اور عصری خوبیوں کا ذکر کیا ہے، وہاں اس میں موجود خامیوں اور اغلاط کی نشاندہی بھی فرمائی ہے۔[3]آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر مصنف ان تینوں اجزا کا جامع خلاصہ ایک جلد میں پیش کرنے پر سنجیدگی سے غور فرمائیں تو یہ نہایت مفید کاوش ہرگھر میں پہنچ سکے گی۔ اور اس ایڈیشن میں اغلاط کی تصحیح بھی کی جا سکتی ہے۔[4] اس عنوان کا تیسرا جز’ازواجِ مطہرات اور مستشرقین‘ جو ظفر علی قریشی کے ایک انگریزی مقالہ کا اُردو ترجمہ ہے۔اس سلسلہ میں فاضل مصنف رقمطراز ہیں کہ ایک قابل غور سوال یہ ہے کہ یہودی اور مسیحی تاریخ میں تعددِ ازواج کے اثبات کا اس موضوع یعنی ’ازواج مطہرات اور مستشرقین‘ سے کیا براہِ راست تعلق ہے؟[5] کتاب کے محاسن کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’کتاب کے آخر میں ۱۳۳ حواشی و حوالہ جات ہیں جن میں تاریخ کے طالب علم کے لیے نہایت مفید قدیم و جدید مآخذ کی طرف راہ نمائی ملتی ہے۔ کتاب کا ترجمہ بالعموم با محاورہ اور موزوں ہے۔‘‘[6]اس سلسلہ میں اُنہوں نے ایک مفید مشورہ بھی لکھا ہے کہ محتاط نظر ثانی سے ترجمہ کو مزید بہتربنانے کی گنجائش موجود ہے۔[7] نقوشِ سیرت کے آخر میں اشاریہ میں اسماء الرجال، اسماء اماکن اور اسماء کتب درج ہیں ۔ اس طرح یہ کتاب اپنی افادیت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک عمدہ کاوش ہے اور مصنف جناب ڈاکٹر صاحب اس سیرتی ادب میں اس مختصر مگر ٹھوس علمی کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
[1] ایضاً،۱۷۹،۱۹۰ [2] ایضاً،ص ۱۹۴ [3] ایضاً،ص۲۰۳ [4] ایضاً،ص۲۰۴ [5] ایضاً،ص ۲۰۸ [6] ایضاً،ص۲۱۳ [7] ایضاً،ص ۲۱۳،۲۱۴