کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 120
مسودہ ۱۹۴۴ء میں کلکتہ یونیورسٹی کی ایم اے کی ڈگری کے لیے تحقیقی مقالے کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر ایم زیڈ صدیقی کی نگرانی میں تیار کیا گیا تھا جو اس یونیورسٹی میں عربی، فارسی، اردو کے شعبے کے صدر تھے۔ کتاب کے انگریزی مقدمے میں جو ۱۹ صفحات پر مشتمل ہے، خطبات کی نوعیت پر مؤثر و مفید بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر زمان صاحب ہر مناسب موقع پر تربیت واصلاح کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، یہاں بھی ان کا خوبصورت ناصحانہ انداز ملاحظہ فرمائیے: لیکن افسوس یہ ہے کہ اس تحقیقی کام میں بھی منتخب متون کے مصادر کا حوالہ بالالتزام نہیں دیا گیا۔[1] ۱۳۴۳ھ/۱۹۲۴ء میں مولوی محمد عبداﷲ خان صاحب،سابق پروفیسر مہندر کالج پٹیالہ نے ’خطباتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کے عنوان سے اپنی تالیف دائرۃ المعارف لاہور سے شائع کی۔ ابتدائی ۳۰ صفحات میں تبلیغ اسلام کے آغاز تک سیرت پاک کا مختصر خاکہ پیش کیا گیا ہے۔اس کے بعد کل ۳۴خطبات عربی متن اور اُردو ترجمے کے ساتھ دیے گئے ہیں ۔ کہیں کہیں ترجمے کے ساتھ توضیحی اشارات بھی دے دیے گئے ہیں مگر اس تالیف کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ایک خطبے کے اختتام اور دوسرے خطبے کے آغاز کے درمیان واقعاتی ربط بھی قائم کر دیا گیا ہے مثلاً دوسرے خطبے کے اختتام(صفحہ ۳۲) اور تیسرے خطبے کے آغاز(صفحہ ۴۱) کے درمیان ۸ صفحات پر ان دو خطبوں کے درمیانی عرصے میں رونما ہونے والے واقعات کا خلاصہ ہے۔[2] سیدنصیر الاجتہادی کی ایک کتاب نھج الفصاحۃ کے نام سے مطبوع ہے جو ۴۹۳ صفحات پر مشتمل ہے جس میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاتیب، مکالمات، مناظرے، فیصلے، اقوال اور دعائیں بھی شامل ہیں ۔ تمام ارشادات کے عربی متن کے ساتھ شگفتہ اُردو ترجمہ دیا گیا ہے۔[3] اسی طرح پروفیسر امتیاز احمد سعید مرحوم کی تالیف ’خطباتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘۱۹۸۱ء میں مطبوعاتِ حرمت راولپنڈی کے زیر اہتمام شائع ہوئی جس میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے ۶۲ اقتباسات کا صرف اُردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ہر اقتباس سے پہلے چند سطروں میں اس خطبے کا موقع و محل بیان کر دیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں ۲۱ مصادر کی ایک فہرست شامل ہے اور ہر اقتباس کے بعد ماخذ کا حوالہ بھی دے دیا گیا ہے۔[4]
[1] ایضاً،ص۱۲۹ [2] ایضاً [3] ایضاً [4] ایضاً،ص۱۲۸،۱۳۰