کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 12
فراہم نہیں کرسکتے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ ہاویر سولانہ ، برطانیہ کے وزیراعظم گورڈن براؤن ، اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ یہ ضمانت فراہم نہیں کرسکتے پھر امن کیسے قائم ہوگا؟ ۲۷/دسمبر کے بعد دنیا کے سینکڑوں شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے اقوامِ متحدہ کی جانبداری پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرچکے ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں بیٹھے ہوئے عالمی نمائندے اور سفارتکار اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں کہ ممبئی کے بم دھماکوں پر عالمی برادری میں جو اِضطراب وتشویش پائی جاتی تھی، غزہ کے حوالے سے یہ تشویش کیوں نظرنہیں آتی ہے۔ مظاہرین پوچھتے ہیں کیا امریکیوں کا خون زیادہ مقدس ہے؟ کیا اسرائیلیوں کی جان زیادہ قیمتی ہے ؟کیا کشمیر،فلسطین،عراق اورافغانستان میں بہنے والا خون اس لیے بے وزن اور بے وقعت ہے کہ یہ کمزورمسلمانوں کا خون ہے۔ حالانکہ یہ خون خود بتا رہاہے کہ مسلمانوں کا لہو بہا کر کوئی امن قائم نہیں کیاجا سکتا۔ فلسطینی جو غزہ کی پٹی میں گزشتہ سوا دوسال سے محاصرے کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، موت اور ہلاکت ان کے لئے اجنبی چیزنہیں ہے۔اسرائیل یہ جانتا ہے کہ یہودیوں ، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں قابل احترام ’سرزمین قدس‘ سے اسرائیل مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام ’بیت المقدس‘ کو زمین بوس کرکے یہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتاہے۔ اس علاقے میں ہیکل کی تعمیر کا خواب یہودی ڈھائی ہزاربرس سے دیکھ رہے ہیں لیکن ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا…!! ۱۹۴۸ء میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز وجود کے قیام، چھ لاکھ فلسطینیوں کو دنیا بھر میں منتشر کرنے، ۱۹۶۷ء میں شام سے گولان کی پہاڑیاں ، مصر سے صحراے سینا ، اُردن سے مغربی کنارہ اور بیت المقدس چھیننے کے، ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے ، ۱۹۹۳ء کے اوسلو معاہدے کے ،