کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 117
نمایاں ارکان بھی ہیں ۔ اس ضمن میں کوئی فرق ہے تو یہی کہ مغرب میں ان تصورات کی تاریخ زیادہ سے زیادہ تین سو سال پرانی ہے اور اس کا عملی نفاد تو ماضی قریب کی بات ہے۔ سویڈن، ناروے، ڈنمارک اور برطانیہ کے نام بطورِ مثال لیے جا سکتے ہیں مگر اسلامی تاریخ میں یہ نظام خلافت ِراشدہ میں ہی مستحکم ہو چکا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ مشہور قول کہ ’’فرات کے کنارے پر کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے گا تو عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی پرسش ہو گی۔‘‘ فلاح کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریہ کی وضاحت کرتا ہے۔ مزید برآں انسان کی حقیقی فلاح کا تعین اسلامی معاشرہ میں قرآن و سنت کی قائم کردہ حدود و قیود کی حفاظت میں ہے۔ سیکولر نظام کی یہ آزادی یہاں نہیں کہ جس چیز کو پارلیمنٹ جائز قرار دے، وہی نافذ العمل ٹھہرے گی۔ اس نظریہ کے اِبطال کے لیے مغربی پارلیمانی اداروں کے بعض ایسے حالیہ قوانین کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جن کا صراحت سے ذکر بھی اس مجلس کے تقدس کے خلاف سمجھتا ہوں ۔[1]
آخر میں لکھتے ہیں :
آئیے اس تاریخ ساز دن میں اپنے آپ کو پاک کرنے کے عزم میں اہل پاکستان کی قیادت کیجیے کہ ہم ظلم بے انصافی، بد دیانتی، فرض سے بے پروائی اور کوتاہی، قومی امانت میں خیانت، مسرفانہ شان و شوکت، اور زبانوں ، صوبوں ، فرقوں جیسی نا حق بنیادوں پر مبنی منافرت کے راستے چھوڑ کر عدل و انصاف، سادگی اور سچائی، اسلامی اخوت و محبت، اتحاد، معاشرتی مساوات، اور حق کے لیے ہر مشکل میں انفرادی و اجتماعی جہاد کا وہ شعار اپنائیں جو اس ملت کی پہچان ہے۔ جس نے اپنی عقیدتوں اور محبتوں کو فخر انسانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کر دیا ہو اور اِمارت، سیاست، جھوٹی بڑائی اور سرداری، منصب اور مال کی نمائش، جَور و جفا، ظلم و تشدد کے پٹے کی بجائے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا مرصع ہار اپنی شخصیتوں کی زینت بنا لیا ہو۔ علماے کرام اور قائدین عوام کو نفاذِ شریعت اور استحکامِ جمہوریت کے نعرے مبارک، مگر خدارا اپنی مثال، اپنے نمونے، اپنی شیریں بیانی اور اپنی شعلہ مقالی کے ساتھ اہل پاکستان کو ان محمدی صفات (علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیم) کی طرف بھی دعوت دیجئے جو اس ملت کی سچی فلاح کے لیے مضبوط بنیاد اور اقوامِ عالم کی صف میں ’پاکستانی‘ کے لفظ کے لیے سچے احترام کی ضمانت مہیا کرتی ہے۔[2]
[1] ایضاً،ص ۱۰۰، ۱۰۱
[2] ایضاً،ص۱۱۶