کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 116
الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں ہم تمام زہد و تقویٰ کے باوجود، سب علم و فضیلت کے باوجود، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ساتھ محبت و اطاعت کا تعلق قائم نہ کر سکیں تو سچی بات یہ ہے کہ سبھی کچھ بے کار ہے۔‘‘[1]
مزیداس طرح رقمطراز ہیں :
’’صداقت کبھی پرانی نہیں ہوتی، سچائی کبھی باسی نہیں ہوتی، خواہ اسے لاکھوں بار دہرایا جائے۔ یہ مصرع ’’اور تم خوار ہوئے تارک ِقرآں ہو کر‘‘ کبھی اپنی حقیقت کھو نہیں سکتا۔ آج ہم اپنے اِرد گرد مسلمان کی خواری، تذلیل اور بے بسی کے جو شرمناک منظر دیکھ رہے ہیں ، ان کی وجہ ترکِ قرآن اور حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فقدان ہے۔‘‘[2]
مغرب کے لوگوں کے نظریہ کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
ان کے نزدیک اب واحد ہدف اسلام ہی ہے۔ وہ تہذیبوں کی آڑ میں یہ سب کچھ کہتے ہیں اور ہم ان کی Duplicity کا رونا روتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کی تعریف ایک جگہ پر کچھ اور کرتے ہیں ، دوسری جگہ کچھ اور کرتے ہیں ۔ یہ ہماری اپنی سادہ لوحی ہے۔ ہمارا اپنا ابلہ پن ہے کہ ہم نہیں پہچانتے کہ وہ تہذیبوں کے تصادم کا اعلان کرچکے ہیں تو آپ ان سے یہ توقع کیوں کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کے بارے میں بھی وہی پالیسی اختیار کریں ، اسرائیل کے اندر اسرائیلی دہشت گردی کو بھی اسی نظر سے دیکھیں جس نظر سے وہ کسی مسلمان ملک میں ، یا کسی بھی مسلمان تنظیم یا فرد کی طرف سے ظاہر ہونے والی دہشت گردی کو دیکھتے ہیں ۔ [3]
آپ کے چوتھے مقالے کا عنوان’’اسلامی فلاحی ریاست؛ اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں ‘‘ ہے۔ یہ مقالہ وزارتِ مذہبی اُمور کی قومی سیرت کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالات پر تبصرہ ہے۔ فرماتے ہیں :
مناسب ہو گا کہ گفتگو کے آغاز میں ہی ایک اہم نکتہ کی تصریح کر دی جائے۔ دورِ جدید میں فلاحی ریاست کی متعدد تعبیریں کی گئی ہیں ، ان نظریات اور اصطلاحی تعریفوں کی تفاصیل کا یہ موقع نہیں ۔ نہایت اختصار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریاست کے شہریوں کی تمام ضروریات کی فراہمی اور مادی بہبود ان کا مرکزی نقطہ ہے۔ خوراک، لباس، رہائش، تعلیم، صحت ِعامہ وغیرہ سب اس کے دائرہ میں آتے ہیں ۔ اس فلاحی تصور کے یہ سب عناصر اسلامی ریاست کے
[1] ایضاً،ص۶۵
[2] ایضاً،ص۸۸
[3] ایضاً،ص۹۳