کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 115
و شکوہ ہو یا بازارِ طائف کا انبوہ، اور اس میں لہولہان بے بس پردیسی کی بے چارگی، ہر عالم میں رحمت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ، آن بان میں ، نہ کمی نہ تغیر اور کیسے ہو کہ ﴿وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْْء ٍ﴾[1] شہنشاہِ ربّ العالمین نے خود محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتہ للعالمین کے تاج سے سرفراز فرمایا۔ یہی عالمین کے کلمہ کی حکمت و جامعیت ہے۔‘‘[2]
’’آج اکنافِ عالم میں اُمت ِمسلمہ گھمبیر مسائل میں ہی گرفتار نہیں ، اس کا تشخص اور وجود بھی معرضِ خطر میں ہے۔ یہ ’’اسلام خطرے میں ہے!‘‘ کا روایتی نعرہ نہیں بلکہ ہمارے گرد و پیش کی ایک معروضی حقیقت ہے۔ شرق و غرب، دائیں اور بائیں کی نظریاتی جنگ، اشتراکیت وشیوعیت اور مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی سرد جنگ ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے پالیسی ساز بین الاقوامی بساط پر اپنی عملی سیاست اور دسیسہ کاری سے اور Huntington جیسے دانش ور نظریہ ساز اپنی تحریروں میں یہ پیغام دینے میں کسی اِخفا، اِیما یا اِبہام سے کام نہیں لے رہے کہ ان کا ہدف ’اسلامی بنیاد پرستی‘(Islamic Fundamentalism)ہے۔‘‘ [3]
آج سے تقریباً ۶۵ برس پہلے جنوبی ہند کے ایک درد مند مسلمان کے نام اپنے خط میں حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا تھا:
"I am glad to hear that the Prophet's Birthday invoked great enthusism in South India. I believe the personality of the Prophet is the only force which can bring together the scattered forces of Islam in this country[4]".
نقوشِ سیرت کا مرکز و محور ؛اطاعت ِ رسول
کتاب کے تیسرے مقالہ کا موضوع ’اطاعت ِرسول ؛ فوز و فلاح کا ذریعہ‘ ہے۔ یہ ان صدارتی کلمات پر مشتمل ہے جو شیخ زاید اسلامک سنٹر پنجاب، لاہور میں منعقدہ ’سیرتِ رحمت کائنات‘ منعقدہ ۱۶/مئی ۲۰۰۲ء میں پڑھے گئے۔ فرماتے ہیں :
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آقا و مولا پر ایمان ہی یقینا دنیا اور آخرت میں نجات کا باعث ہے۔ سرخ روئی کا ذریعہ ہے، فلاح اور کامیابی کا وسیلہ ہے، اس کے بغیر سب کچھ نا مکمل ہے۔ حکیم
[1] الاعراف:۱۵۶
[2] نقوشِ سیرت،ص۶۶،۶۷
[3] ایضاً،ص۷۵
[4] ایضاً،ص۷۶