کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 114
علمی و لغوی مباحث
مصنف نے دوسرا مقالہ ’’ محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ نبی ٔرحمت و عزیمت‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس میں کئی علمی اور لغوی نکتے بیان کیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے:
’’بے محل نہ ہو گا اگر یہاں اس نکتے کی بھی صراحت کر دی جائے کہ اﷲ تعالیٰ کے بیشتر صفاتی نام انسانوں اور دیگر مخلوق کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ مثلاً رحیم کو لیجیے، یہ اسم قرآن مجید میں ہی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مؤمنین کے لیے شفقت اور رافت و رحمت کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے:﴿لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ﴾[1]اس آیت ِکریمہ میں ربّ ِرحیم کے دو صفاتی ناموں رؤف اور رحیم کا استعمال حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرورِ کائنات کے لیے فرمایا گیا ہے۔ رحیم کی جمع رُحماء ہے جس کا استعمال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے لیے ہوا ہے: ﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُمْ﴾[2]
اَحَدکا کلمہ سورۂ اخلاص کی آیت نمبر۱ میں ذاتِ باری کے لیے اور آیت ۴ میں ’کفواً‘ کی صفت کے طور آیا ہے۔ اس کلمہ سے مؤنث کا صیغہ اِحدٰی قرآنِ کریم میں جا بجا استعمال ہوا ہے۔ خالق کا لفظ کسی ادب پارے یا فن پارے کی تخلیق کرنے والے کے لیے عام بولا جاتا ہے۔ حکیم، حلیم، عظیم، متین، رفیع، شکور، ظاہر، حاکم…علیٰ ہذا القیاس ربّ ِکریم کے بیسیوں صفاتی ناموں کا استعمال انسان یا دیگر مخلوق کے لیے بھی ہوتا ہے۔‘‘[3]
مزید لکھتے ہیں :
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا فیض بلا قید ِزمان، عالم حاضر و عالم مستقبل، ہر زماں اور اہل زماں کے لیے جاری ہے۔ دوست کی دوستی، جاں نثار کی جاں سپاری، صاحب ِخیر و خلوص کی غم گساری، اعداے کینہ پرورکا عناد، مجوسی و صابی کا فساد، خاکی کا عجز، عالی کا فخر، ابلہ کی سادہ لوحی، حبی نیس کی عبقریت، غریب کی غربت، قریب کی قربت… ہر کیفیت میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا در کشادہ، فتح مکہ کے جلال و جبروت میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت و سطوت اور شان
[1] التوبہ:۱۲۸
[2] الفتح:۲۹
[3] نقوشِ سیرت،ص۶۴