کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 113
مقالات شامل ہیں جب کہ تیسرے حصہ ’اُردو میں سیرت پر چند حالیہ تصانیف‘ میں تین مقالات شامل ہیں ، آخر میں اسماء الرجال، اسماے اماکن اور اسماے کتب کی فہارس کے ساتھ اشاریہ مرتب کیا گیا ہے۔
کتاب کی چند خصوصیات
یہ کتاب بہت سی خوبیوں سے مزین ہے جن میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے حقائق کو ہمارے دور کے لیے نمونہ ثابت کرتے ہوئے ہر مقام پر کوئی نہ کوئی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ حدیبیہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
ابو جندل کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے دوران ہی قریش کے سفیر سہیل بن عمرو کے حوالے کر دیا، کیونکہ یہ طے ہو چکا تھا۔ ہم نے بھی ایک عہد کیا جس کی صداے باز گشت ہمارے بچوں ، بوڑھوں ، مردوں ، عورتوں کی زبان کا وِرد ہو گئی۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اﷲ‘‘ کا نعرہ قریہ قریہ، گاؤں گاؤں گونجا۔ پینتیس برس ہوئے رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ ستائیسویں کی مبارک شب کہ ربّ ِجلیل نے ایک مردِ عظیم کے ہاتھوں اپنا وعدہ پورا فرما دیا۔ ہمارے حصے کی شق باقی رہی، کیا ہم اپنا قرض اُتار چکے؟ ہم نے ارضِ پاکستان کو لا الہ الا اﷲ کا جیتا جاگتا نقشہ بنانے میں کہاں تک پیش رفت کی؟ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی پر کہاں تک اخلاقیات و تعلیماتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ چڑھا۔[1]
اُسلوبِ نگارش
اندازِ نگارش میں عجیب چاشنی ہے۔ بطورِ مثال:
اعلانِ نبوت کا دسواں سال ہے۔ ابو طالب رخصت ہوئے پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی داعی ٔاجل کی پکار پر عین منجدھار میں اس رفیق ؐ کی رفاقت توڑ دی جسے کملی اُڑھا اُڑھا کے بارِ نبوت اٹھانے کی تشفیاں دی تھیں ۔ عم نصیر بھی گیا، رفیق وزیر بھی رخصت ہوا۔ مصائب آندھیاں بن گئیں ۔ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اپنی دُھن میں تن من دَھن اسی طرح دعوت کی راہ میں لٹانے کو تیار ۔[2]
[1] ایضاً،ص۴۴،۴۵
[2] ایضاً،ص۵۲